بھٹکل:پھر شروع ہوا جے ڈی ایس اور بی جے پی کا ہنی مون سیزن - ہَوا میں لٹک گیا ضلع کے جے ڈی ایس لیڈران کا سیاسی مستقبل ۔۔۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شباب
رنگ بدلتے سیاسی موسم کے بیچ اگلے پارلیمانی انتخابات کے پس منظر میں جنتا دل ایس کے سپریمو سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے درمیان ہوئے سمجھوتے کے ساتھ ریاست میں پھر ایک بار جے ڈی ایس اور بی جے پی کا نیا ہنی مون سیزن - ۲ شروع ہونے جا رہا ہے جس کے بعد ضلع کے جے ڈی ایس لیڈران کا سیاسی مستقبل ہَوا میں لٹکتا محسوس ہو رہا ہے ۔
گھاس کا پُولا اور کنول کا پھول: پارلیمانی انتخاب میں کانگریس کے ہاتھ سے دو دو ہاتھ کرنے کی خواہش میں دیوے گوڈا نے گھاس کا پُولا سر پر اٹھائی ہوئی خاتون کے جوڑے میں کنول کا پھول سجانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے نتیجے میں ریاست بھر میں کس طرح کے کانٹے دار پھل نکلیں گے یا پھر کنول کے اندر چھپے ہوئے کانٹے کے زہر سے خود گھاس کا پولا ڈھونے والی خاتون ہی ہمیشہ کے لئے ڈھیر ہو جائے گی اس بارے میں اٹکلیں تو لگائی جارہی ہیں، مگرحقیقی صورتحال دیکھنے کے لئے لوک سبھا کے انتخابات اور اس کے نتائج کا انتظار کرنا پڑے گا ۔
ضلع اتر کنڑا کی صورت حال: البتہ جہاں تک ضلع اتر کنڑا کا تعلق ہے، یہاں جنتا دل ایس کی سیاسی زمین کچھ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ابھی پچھلی بارمنعقد ہوئے اسمبلی انتخابات میں ضلع کی چھ سیٹوں میں سے صرف کمٹہ اور ہلیال حلقے کو چھوڑیں تو بقیہ مقامات پر جے ڈی ایس امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو چکی ہے۔ دوسری طرف گزشتہ اسمبلی انتخاب میں پوری ریاست کے ساتھ ضلع اترکنڑا میں بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کانگریس پارٹی کے قدم اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں اور پارلیمانی انتخابات کے لئے اس کے کیڈر اور لیڈر دونوں کا مورال بہت ہی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ وہ لوگ آئندہ الیکشن میں بی جے پی کے دانت کھٹّے کرنے کی زبردست تیاری میں لگے ہیں اور جے ڈی ایس کو کسی بھی خاطر میں لانے کا ان کے لئے سوال ہی نہیں ہے۔ اسی خطرناک اور مخالفانہ ہوا کو محسوس کرتے ہوئے جنتا دل کے باپ اور بیٹے نے اپنی ڈوبتی کشتی بچانے کے لئے بی جے پی کے کیمپ میں شرن لینے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔
لیڈروں کی پوزیشن ڈانواڈول: دیوے گوڑا کی نمو شاہ (نریندرا مودی + امیت شاہ) کے ساتھ بغل گیری کے بعد اتر کنڑا میں مسئلہ صرف جنتا دل ایس کے باقی رہنے اور نہ رہنے کا نہیں ہے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ اب ضلع میں جنتا دل کے کچھ لیڈروں کا سیاسی مستقبل دوراہے پر ہَوا میں معلق اور ڈولتا ہوا ضرور محسوس ہو رہا ہے۔
مثلاً ایک زمانے سے ضلع میں جے ڈی ایس کے کٹر حامی اوراہم لیڈر کے طور پر اپنی شناخت بنانے والے جناب عنایت اللہ شاہ بندری، کاروار میں دل بدلی کے کرتب دکھانے والے اور فی الحال جے ڈی ایس کے لیڈر اور سابق ایم ایل اے آنند اسنوٹیکر، گزشتہ اسمبلی انتخابات کے موقع پر کانگریس سے چھلانک لگا کر جے ڈی ایس کے پالے میں چلے جانے والے ہلیال کے تجربہ کار سیاستداں شریکانت گھوٹنیکر اور کمٹہ حلقہ سے جے ڈی ایس امیدوار کے طور پر گزشتہ انتخاب میں بہت ہی کم ووٹوں سے شکست کھانے والے سورج نائک سونی کی پوزیشن اس وقت خطرناک طریقے سے ڈانوا ڈول ہوگئی ہے ۔
ضلع میں لیڈران کا مسئلہ: اب تک گوڑا اور نمو شاہ کے درمیان طے ہونے والی باتوں کا جو اشارہ ملا ہے اس کے مطابق جے ڈی ایس کو ریاست کی 28 سیٹوں میں سے صرف 4 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت ہوگی اور بقیہ 24 سیٹوں پر جے ڈی ایس کے حمایت کردہ بی جے پی کے امیدوار ہونگے۔ اور اہم نکتہ یہ ہے کہ جے ڈی ایس کے لئے مختص کی گئی چار سیٹوں میں اتر کنڑا کی سیٹ شامل نہیں ہے۔ ضلع کے لیڈران کے لئے اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ جے ڈی ایس میں بنے رہیں گے تو ان کے لئے ہنی مون کے قاعدے کے مطابق اپنے پارٹنر یعنے بی جے پی کے امیدوار کی تائید اور تشہیر کرکے اسے جیت سے ہمکنار کرنا لازمی ہوجائے گا ۔
سیاسی قبر کھودنے جیسی پوزیشن: ایسے میں کمٹہ کے سورج نائک سونی اور ہلیال کے گھوٹنیکر کے لئے مشکل گھڑی سامنے آگئی ہے۔ کیونکہ ان دونوں حلقوں میں ان امیدواروں نے گزشتہ اسمبلی الیکشن میں جو ووٹ حاصل کیے ہیں، یا پھراس سے قبل کمٹہ میں دینکر شیٹی اور ہلیال میں سنیل ہیگڈے نے جنتا دل امیدوار کی حیثیت سے اسمبلی الیکشن جو جیتا تھا، وہ جنتا دل ایس کے ووٹ بینک سے آنے والے ووٹ ہرگز نہیں ہیں، بلکہ یہ تو ان حلقوں میں مذکورہ امیدواروں کی اپنی سیاسی گرفت کے نتیجے میں ملنے والے ووٹ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اگر سورج نائک سونی اور شریکانت گھوٹنیکر پارلیمانی انتخابات میں جنتا دل ایس کی وہپ پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی امیدوار کی جیت کے لئے تشہیر اور محنت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے ووٹروں یا حامیوں کو خود اپنے ہاتھ سے بی جے پی کیمپ کے حوالے کر رہے ہیں۔ اور یہ بات ان کے لئے اپنی سیاسی قبر خود ہی کھودنے کے مترادف ہو جائے گی۔
کیا کانگریس میں موقع ملے گا: اس موڑ پر جنتا دل کے ان لیڈروں کے لئے کانگریس میں شامل ہو کر اپنا سیاسی مستقبل محفوظ رکھنے اور کانگریس کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے مواقع بھی کم ہی نظر آتے ہیں، کیونکہ کانگریس میں پہلے ہی سے پرشانت دیشپانڈے، مارگریٹ آلوا جیسے بلند قامت لیڈران موجود ہیں جن کی وجہ سے دوسروں کو ٹکٹ ملنا دشوار ہے۔ ویسے بھی اتر کنڑا پارلیمانی حلقہ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بی جے پی کا پلہ ہی بھاری رہا ہے جس کی وجہ سے بی جے پی امیدوار کو کانگریس کے بڑے لیڈران بھی شکست دینے میں ناکام رہ چکے ہیں۔
آنند اسنوٹیکر کی کشتی بھنور میں: کاروار کے آنند اسنوٹیکر کی بات کریں تو ان کی کشتی بھی اس وقت بہت ہی بری طرح بھنور میں آگئی ہے۔ حالانکہ آنند اسنوٹیکر اس وقت تیکنیکی طور پر جنتا دل ایس کے لیڈر ہیں، لیکن انہوں نے خود ہی اعلان کیا تھا کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب میں وہ بی جے پی کے امیدوار ہونگے۔ اب بی جے پی اور جنتا دل کے گلے ملنے سے اسنوٹیکر کے لئے مشکل یہ کھڑی ہوگئی ہے کہ سابقہ اسمبلی الیکشن میں جنتا دل میں رہتے ہوئے بھی در پردہ کانگریسی امیدوار کے لئے کام کرنے کا جو خمیازہ ہے وہ اب بھگتنا پڑسکتا ہے۔ مقامی بی جے پی کارکنان بجا طور پر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اب آنند اسنوٹیکر کس منھ سے بی جے پی امیدوار کے لئے کام کریں گے ؟
ایک بات یہ بھی ہے کہ روپالی نائک اور سنیل ہیگڈے سمیت بی جے پی کے دیگر لیڈران کے ساتھ اسنوٹیکر نے جس طرح کا مخالفانہ رویہ اپنایا تھا اسے یہ لوگ بھلا نہیں سکیں گے۔ دوسری طرف جنتا دل لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ کمارا سوامی بھی آنند اسنوٹیکر کی سیاسی تگڑم بازی سے تنگ آ چکے ہیں۔ ایسے حالات میں اسنوٹیکر کے لئے خود اپنے ہی ہاتھوں بچھائے جال سے باہر نکلنے اور اپنا ختم ہوتا ہوا سیاسی وجود باقی رکھنے کے لئے شاید کانگریس میں شامل ہونے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہے، جو کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہو سکتا ہے ۔
عنایت اللہ شاہ بندری کے لئے 'اگنی پریکشا': ہمارے خیال میں جنتا دل - بی جے پی ہنی مون سیزن - ۲ کی وجہ سے اب سب سے بڑی اگنی پریکشا ہمارے سیاسی و سماجی قائد عنایت اللہ شاہ بندری کی ہے۔ زمانہ دراز سے وہ ایک کٹر جنتا دل لیڈر ہیں اور برسہا برس سے ہر سرد و گرم موسم میں وہ جنتا دل کا ساتھ نبھاتے آئے ہیں۔ عنایت اللہ نے جے ڈی ایس کا ساتھ اس وقت بھی نہیں چھوڑا تھا جب نیشنل سطح پر بلند قامت سیاسی لیڈر کی پہچان رکھنے والے سی ایم ابراہیم جیسے لیڈروں نے تک دیوے گوڈا اور کمارا سوامی کا ساتھ چھوڑا تھا۔ عنایت اللہ صاحب نے جنتا دل کا ساتھ اس وقت بھی نہیں چھوڑا تھا جب کمارا سوامی نے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کے لئے بی جے پی کے کنول کو گلے میں سجایا تھا اوران دو پارٹیوں کا ہنی مون سیزن - ۱ شروع کیا تھا ، بلکہ اس دوران جب وزیر اعلیٰ کمارا سوامی کا بھٹکل سے گزر ہو رہا تھا تو انہوں نے سرکل کے پاس جے ڈی ایس لیڈر کی حیثیت سے ان کا پرتپاک استقبال اور گلپوشی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے سچے اور پکے جنتا دل سیاست دان ہیں۔
اب منظر نامہ دوسرا ہے: لیکن اب عنایت اللہ شاہ بندری کے لئے منظر نامہ بالکل بدل چکا ہے۔ اب وہ صرف ایک سیاسی شخصیت اور جنتا دل ایس کے سچے پکے لیڈر نہیں رہے۔ اب وہ تو بھٹکل اور اطراف کے پورے مسلم طبقہ کے سماجی لحاظ سے سردار کے بلند و بالا منصب پر فائز ہیں۔ سنگھی سیاست اور فسطائی جبر و ستم کی علمبردار بی جے پی کے خلاف محاذ اور مورچے کی حیثیت رکھنے والے بڑے ہی معتبر اور باوقار ملّی ادارے کے کمانڈر ہیں۔ اب جبکہ عنایت اللہ صاحب کو سیاسی میدان میں اپنے بیٹے کی طرح ماننے والے جنتا دل سپریمو دیوے گوڈا نے پھر ایک بار سیاسی مفاد پرستی کا مظاہرا کیا ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا حرام کرنے اور مسلمانوں کو سیاسی، ملّی اور مذہبی حیثیت سے تباہ کرنے کا ایجنڈا رکھنے والی فسطائی قوتوں سے ہاتھ ملایا ہے تو ظاہر ہے کہ عنایت اللہ شاہ بندری صاحب کے سامنے بھی 'نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن' (نہ بھاگ سکتے ہیں نہ رک سکتے ہیں) والی سچویشن درپیش آگئی ہے۔ اب چونکہ وہ سماجی و ملّی حیثیت سے فسطائیت مخالف مورچہ کے کمانڈروں کی صف میں کھڑے ہیں تو ان کے لئے جنتا دل ایس میں بنے رہنے اورآنے والے پارلیمانی انتخاب میں جنتادل لیڈر کی حیثیت سے بی جے پی کے امیدوار کی حمایت میں کام کرنے اور صرف سیاسی لیڈر اور سیاسی تقاضوں کا حوالہ دے کربچ نکلنے کی گنجائش تو بہر حال نکل نہیں سکتی۔
لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اتر کنڑا کے جنتا دل لیڈروں کے لئے 'آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی' والی صورتحال کا سامنا درپیش ہے اور ان کے لئے دونوں ہی صورتوں میں سیاسی موت یا خود کشی کے مرحلے سے گزرنا لازمی ہوگیا ہے ۔