نجف میں مقبول شیعہ رہ نما مقتدیٰ الصدر کے مکان پر راکٹ حملہ
بغداد /8 دسمبر (آئی این ایس انڈیا)عراق کے دارالحکومت بغداد میں مظاہرین کے خون کی ہولی کے ایک روز بعد جنوبی شہر نجف میں مقبول شیعہ رہ نما مقتدیٰ الصدر کے مکان پر ایک ڈرون سے راکٹ داغا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق اس ڈرون حملے میں مکان کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔البتہ اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔اس حملے کے وقت خود مقتدیٰ الصدر مکان میں موجود نہیں تھے اور وہ ایران کے دورے پر گئے ہوئے ہیں۔مقتدیٰ الصدر مقبول جادوئی عوامی لیڈرہیں۔ دارالحکومت بغداد اور جنوبی شہروں میں ان کا وسیع حلقہ اثر ہے۔ان کے زیر قیادت اتحاد سائرون نے عراق میں منعقدہ گذشتہ عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔انھوں نے حالیہ احتجاجی مظاہروں کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور وہ اصلاحات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن اپنی مکمل حمایت احتجاجی تحریک کے پلڑے میں نہیں ڈالی ہے۔اس حملے سے قبل جمعہ کی شب نقاب پوش مسلح حملہ آوروں نے بغداد میں دریائے دجلہ پر السنک پْل پر احتجاج کرنے والے مظاہرین پر دھاوا بول دیا تھا جس سے تیئیس افراد موقع پر ہلاک ہوگئے تھے۔ ان کی فائرنگ کا سلسلہ ہفتے کی صبح تک جاری رہا تھا اور انھوں نے کئی ایک مظاہرین کو چاقو بھی گھونپے ہیں۔عراقی حکام کے مطابق بغداد کے وسط میں مظاہرین پر حملے میں مرنے والوں کی تعداد پچاس ہوگئی ہے۔ان میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں اور ایک سو تیس سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔مقتدیٰ الصدر کی جماعت کے ترجمان جعفرالموسوی نے کہا ہے کہ اس حملے کا مقصد مظاہرین اور سیاسی لیڈروں پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ حکمراں اشرافیہ کے نامزد وزارتِ عظمیٰ کے کسی بھی امیدوار کو قبول کرلیں۔انھوں نے کہا کہ ”بغداد میں السنک پل پر قتلِ عام اور نجف میں مقتدیٰ الصدر کے مکان پر بمباری وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی سمیت مختلف عہدے دار عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کو مستعفی ہونے سے روکنے کے لیے کوشاں رہے ہیں لیکن ان کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوسکیں اور وہ گذشتہ ہفتے احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔قاسم سلیمانی اس ہفتے بھی مبیّنہ طور پر بغداد میں پائے گئے ہیں اور انھوں نے عراق کے مختلف سیاسی لیڈروں سے مذاکرات کیے ہیں تاکہ وزارت عظمیٰ کے لیے ایران کے پسندیدہ کسی نئے امیدوار پر اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔