بی جے پی کو ایک اور بڑا جھٹکا؛ کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ جگدیش شیٹر نے اسمبلی رکنیت سے دیا استعفیٰ، بی جے پی چھوڑنے کے لیے ہوگئے بنگلورو روانہ؛ کیا کانگریس میں ہوں گے شامل ؟
بھٹکل 16/اپریل (ایس ا و نیوز) آئندہ ماہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی نے جیسے ہی اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کی پارٹی میں استعفوں کی جھڑی لگ گئی ہے۔ کئی اہم کارکنان پارٹی چھوڑ چکے ہیں جبکہ کئی دیگر سخت ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔ ناراضگی اس قدر شدید ہے کہ ریاست کےسابق نائب وزیر اعلیٰ سمیت کرناٹک بی جے پی کے تین اراکین اسمبلی بھی پارٹی سے کنارہ کر چکے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، اب بھی کئی اراکین اسمبلی اور لیڈران ناراض ہیں جو بہت جلد پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔
پارٹی میں پہلے ہی بھگڈر مچ چکی ہے، ایسے میں بی جے پی کی ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ، بااثر لنگایت لیڈراور سنئیر بی جے پی رکن اسمبلی جگدیش شیٹر نے بھی کرناٹک قانون ساز اسمبلی کی اپنی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے اتوار کو اترا کنڑ ضلع کے سرسی پہنچ کر قانون ساز اسمبلی کےا سپیکر وشویشور ہیگڈے کاگیری سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور اُنہیں اپنا استعفیٰ پیش کیا۔
مسٹر شیٹر نے سرسی میں صحافیوں کو بتایا کہ وہ بی جے پی سے استعفیٰ دینے کے لیے بنگلورروانہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے بی جے پی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مجھے اس بات کا پتہ نہیں ہے کہ آخر کس وجہ سے پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا۔ اور میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کروں گا۔ " شیٹر نے اخبارنویسوں کے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ آنے والے الیکشن میں بی جے پی کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجوہات سے وہ لاعلم ہیں۔جگدیش شیٹر نے کہا، " پارٹی کا سینئر رکن ہونے کے باوجود، مجھے ٹکٹ دینے سے انکار کیا گیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ اس کی کیا وجوہات ہیں، اسی لئے میں نے قانون ساز اسمبلی سے ابھی استعفیٰ دے دیا ہے اور اب بی جے پی سے استعفیٰ دینے کے لئے بینگلور جارہاہوں۔ شیٹر نے کہا کہ میں صرف اپنے حلقے کی خدمت کے لیے ایم ایل اے کے طور پر کام کرنا چاہتا ہوں اور مجھے کسی وزارت کی خواہش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے ٹکٹ نہ دینے کی وجہ کیا ہے۔
اپنے آئندہ کے اقدام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے سامنے تمام اختیارات کھلے ہیں۔ مزید بتایا کہ میں اپنے خیر خواہوں سے بات چیت کر رہا ہوں کہ میرے لیے کون سا فیصلہ درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کانگریس لیڈران نے ابھی تک ان سے رابطہ نہیں کیا ہے لیکن وہ اپنے قریبی لوگوں سے کانگریس میں شامل ہونے کے بارے میں بات کریں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا وہ اس معاملے پر وزیر اعظم نریندر مودی سے رجوع کریں گے؟ شیٹر نے کہا کہ وہ وزیر اعظم مودی یا مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ تک پہنچنے کی کوئی کوشش نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے! سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ بی جے پی میں سینئرز کو جان بوجھ کر ذلیل کیا جا رہا ہے۔ اس سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔ ریاست میں کچھ چیزوں کو ہلکے میں لیا جا رہا ہے۔ ان میں بزرگوں سے بات کرنے کے آداب نہیں ہیں۔ شیٹر نے کہا کہ بی جے پی ملک میں لنگایت قیادت کو تباہ کر رہی ہے۔
ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق جمعہ اور ہفتہ کو، بی جے پی ہائی کمان نے دھرمیندر پردھان، سی ایم بسواراج بومائی اور پرہلاد جوشی جیسے سفیروں کو مسٹر شیٹر کے گھر روانہ کیا تھا کہ کسی بھی طرح انہیں منائیں۔ تاہم، دوسروں کے لیے راستہ بنانے کے لیے انھیں انتخابی میدان سے سبکدوش ہونے پر راضی کرنے کی ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔
شیٹر کے استعفیٰ کو اور بی جے پی چھوڑنے کے فیصلہ کو بی جے پی کے لیے ایک اور بڑے جھٹکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔یاد رہے کہ ایک روز قبل ہی اتھنی حلقہ سے ٹکٹ نہ دیے جانے پر لکشمن ساودی کانگریس میں شامل ہو چکے ہیں اورکانگریس نے انہیں اسی حلقہ سے امیدوار کے طور پر میدان میں اتاردیا ہے۔ اسی طرح رکن اسمبلی ایم پی کماراسوامی بھی بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔بی جے پی کے رکن اسمبلی انگارا نے بھی پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے، سابق وزیر کے ایس ایشورپا پہلے ہی ٹکٹ نہ ملنے کے اشارے پر انتخابی سیاست سے سبکدوشی کا اعلان کر چکے ہیں۔کے ایس ایشورپا کی سبکدوشی کے اعلان کے بعد احتجاج کے طور پر شیموگہ میں میونسپل کارپور یشن کے ۱۹؍اراکین اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ یہاں میئر اور ڈپٹی میئر نے بھی عہدہ چھوڑ دیا ہے، یہاں تک کہ شیموگہ کے ضلع صدر نے بھی ایشورپا کی حمایت میں پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔