بنگلورو،29؍ستمبر(ایس او نیوز) اراضی اصلاحات قانون اور APMC قانون میں ترمیم کے خلاف پورے کرناٹک میں گزشتہ چند دنوں سے کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔ آج بروز پیر، 28 ستمبر کو کسانوں کی مختلف تنظیموں نے کرناٹک بند کی کال دی تھی۔ اس بندکا ریاست میں ملا جلا اثر دیکھنے کو ملا ہے، لیکن کسانوں کے اس احتجاج کو غیر معمولی رسپانس حاصل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی تنظیموں کو چھوڑکرتمام سیاسی جماعتیں، سماجی تنظیمیں، دلت اور ترقی پسند تنظیمیں، بائیں بازو تنظمیں، مسلم تنظیمیں، طلبہ تنظیمیں کسانوں کے احتجاج میں شامل ہوکر کسانوں کے حق میں پرزور طریقہ سے آواز اٹھا رہی ہیں۔
کرناٹک بند کے موقع پر بنگلورو میں نکالی گئی احتجاجی ریلی ایک بڑی تحریک کا منظر پیش کررہی تھی۔ شہر کے ٹاون ہال سے فریڈم پارک تک برآمد کی گئی احتجاجی ریلی میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے خلاف نعرے لگائے۔ جے جوان جےکسان کے نعروں کی گونج اس ریلی میں سنائی دی۔ مسلم سیاسی پارٹیاں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے احتجاجی ریلی میں حصہ لیا۔ ایس ڈی پی آئی کے نمائندوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کو ان کی زمین سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ زراعت کے پیشہ کو نجی کمپنیوں کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ ویلفیئر پارٹی کے نمائندوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کو غلام بنانا چاہتی ہے۔ اے پی ایم سی ایکٹ میں تبدیلی ہونی چاہئے لیکن اس تبدیلی سے غریب کسانوں اور چھوٹے تاجروں پر اثر نہیں ہونا چاہئے۔
اس موقع پر پولیس نے ویلفیئر پارٹی کے ریاستی صدر ایڈوکیٹ طاہر حسین سمیت کئی افراد کو حراست میں لیا۔ دوسری جانب شہر کے مختلف مقامات پر راستہ روکو احتجاج کرنے والوں کو پولیس نے اپنی تحویل میں لیتے ہوئے آمدو رفت بحال کرنےکی کوشش کی۔ بند اور احتجاج کے دوران شہرکےکئی علاقوں میں سرکاری بس سروس جاری رہی۔ پولیس بندوبست کے درمیان KSRTC اور BMTC بسیں سڑکوں پر دوڑتی ہوئی دکھائی دیں، لیکن بسوں میں مسافروں کی تعداد نہ کے برابر تھی۔
کرناٹک بند کے موقع پر بنگلورو کے چھوٹے اور بڑے شاپنگ مالس بند رہے۔ شہر کے بڑے تجارتی مراکز بھی بند رہے، لیکن سرکاری دفاتر کھلے تھے، ضروری خدمات پر بند کا اثر نہیں دکھائی دیا۔ ریلوے اسٹیشنوں پر سیکورٹی بڑھا دی گئی تھی۔ ٹرین سروسیز معمول کے مطابق جاری رہی۔ بنگلورو کے مرکزی علاقے میجسٹک، میسور بینک سرکل، کارپوریشن سرکل، ٹاون ہال سٹی مارکیٹ میں بند اور احتجاج سے عام زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ ان علاقوں میں کسانوں اور دیگر تنظیموں کا احتجاج مظاہرہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ اس طرح بنگلورو اور کرناٹک کے دیگر شہروں میں کسانوں کے بند کا ملا جلا اثر دیکھنے کو ملا۔ ریاست کی دو اہم سیاسی پارٹیاں کانگریس اور جے ڈی ایس نے بھی کسانوں کے بند اور احتجاج کی حمایت کی تھی۔
اپوزیشن جماعت کانگریس نے بنگلورو میں علیحدہ طور پر احتجاجی مظاہرہ منعقدکیا۔ اس احتجاجی مظاہرے میں پردیش کانگریس کمیٹی کے کئی بڑے لیڈروں نے حصہ لیا۔ کرناٹک کے نئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) انچارج رندیپ سنگھ سرجے والا، پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ڈی کے شیوکمار، ساق وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر سدارامیا، سینئرلیڈر ملیکا ارجن کھڑگے اور دیگر نے احتجاجی مظاہرہ میں حصہ لیا۔ اس موقع پر کانگریس پارٹی نے ریاستی اور مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس احتجاجی مظاہرہ کے بعد کانگریس لیڈروں کے ایک وفد نےگورنر واجو بھائی والا سے بھی ملاقات کی اور یادداشت پیش کی۔
اس موقع پر کانگریس لیڈر سدارامیا نے کہا کہ اراضی اصلاحات قانون میں غیر ضروری طور پرتبدیلی لائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزدور قوانین میں کی گئی تبدیلیوں کی بھی کانگریس نے مخالفت کی ہے۔ ریاست کی قانون ساز کونسل میں مزدور قانون میں ترمیم کا بل مسترد ہوا ہے۔ انہوں نےکہا کہ اے پی ایم سی اور اراضی اصلاحات ترمیمی بل قانون ساز اسمبلی میں منظور کئے گئے ہیں، لیکن قانون ساز کونسل میں منظوری کیلئے نہیں آئے ہیں۔ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ مرکزی حکومت ہماری ریاست کو نشانہ بنا کر قانون لا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام ترمیم شدہ قوانین کسانوں کے خلاف ہیں، ان سے صرف سرمایہ کاروں کو فائدہ ہوگا۔ کرناٹک کے نئے کانگریس انچارج رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا کہ دہلی میں مودی اور کرناٹک میں یدی یورپا کسانوں کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ دونوں لیڈران کسانوں کی زندگیوں کو تباہ کررہے ہیں۔
دوسری جانب کرناٹک کے وزیر اعلی بی ایس یدی یورپا نے اپوزیشن پارٹیوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسانوں کے ساتھ ناانصافی ہونے نہیں دیں گے۔ وزیر اعلی یدی یورپا نے کہا کہ وہ ایک کسان کے بیٹے ہیں۔ چار مرتبہ ریاست کے وزیر اعلی بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ آنے والے دنوں میں ریاست کا دورہ کریں گے۔ 6 ماہ کے اندر کسانوں کو معلوم ہوگا کہ یہ نئے قوانین ان کے لئےکتنے مفید ہیں۔