بنگلورو،10/فروری(ایس او نیوز)مرکزی حکومت کی طرف سے شہریت قانون کو نافذ کرنے کے فوراً بعد یکم اپریل سے ملک بھر میں مردم شماری 2020کے ساتھ ساتھ نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کی تیاری کے کام کو بھی شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا اور اس کے لئے تمام ریاستوں کو ضروری ہدایات جاری کرنے کے ساتھ ہی مرکزی حکومت کی طرف سے ایک این پی آر مینؤل بھی تیار کیا گیا اور اس پر کام کی شروعات کے لئے قومی سطح پر تیاری جاری ہے ایسے میں این پی آر کے قانونی جواز پر بھی کئی حلقوں سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اس کا چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں بھی عرضیاں داخل ہوچکی ہیں ایسے میں مرکزی حکومت کی طرف سے جو این پی آر کروایا جا رہا ہے۔ اسے مکمل طور پر غیر قانونی ثابت کرتے ہوئے ملک کے ماہر قانون دان فیضان مصطفی نے متعدد دلائل پیش کئے ہیں اور کہا ہے کہ اس ملک میں مرکزی حکومت کی طرف سے این پی آر نافذ کرنے کے لئے جو ضوابط اپنائے گئے ہیں ان کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ملک بھر میں نیشنل پاپولیشن رجسٹر تیار کرنے کا فیصلہ 2003میں ہوا اور اس کے لئے ضوابط کا تعین 10دسمبر 2003کو کیا گیا جس قانون کے تحت این پی آر کروانے کی تیاری کی جا رہی ہے وہ شہریت سے جڑا ہوا ہے اس کے لئے مرکز کی واجپائی حکومت نے یہ ضوابط تیار کئے تھے لیکن موجودہ حکومت کی طرف سے جو این پی آر کروایا جا رہا ہے وہ شہریت قانون کی دفعہ 14Aکے تحت کروایا جا رہا ہے جو 4دسمبر 2004کو ملک بھر میں لاگو ہو ا۔ اس کا مطلب یہ کہ قانو ن بعد میں بنا لیکن اس کے ضوابط ایک سال پہلے ہی بن گئے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ بچہ پہلے پیدا ہو گیا اور باپ کی پیدائش بعد میں ہوئی۔ فیضان مصطفی نے کہا ہے کہ19ستمبر2019کو موجودہ مرکزی حکومت نے ہاؤزلسٹنگ کے ساتھ این پی آر تیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی ذمہ داری رجسٹرار آف سٹی زنس آف انڈیا کو سونپی۔
فیضان مصطفی نے کہا ہے کہ حکومت شہریت قانون کی جس دفعہ کے تحت این پی آ رکروانا چاہتی ہے اس میں این پی آر کا کوئی تذکرہ ہی موجود نہیں ہے۔ جہاں تک مردم شماری کا سوال ہے اس کے تحت ملک کے کسی شہری پر یہ پابندی نہیں ہے کہ اس کی نجی معلومات لازمی طور پر فراہم کرے۔ جہاں تک این پی آر میں انفرادی معلومات کی فراہمی کے لئے حکومت کے اصرار کا تعلق ہے اسے انہوں نے بنیادی حقوق کی پامالی قراردیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے 2009کے پٹو سوامی کیس میں یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ حق انفرادیت ایک بنیادی حق ہے جو اس ملک کے ہر شہری کو حاصل ہے۔ اس بنیاد پر کسی کو اس کی یا اس کے خاندان کی انفرادی تفصیلات فراہم کرنے کے لئے مجبور کرنا بنیادی حقوق کی صریح پامالی ہو گی۔ حکومت اگر اس حق میں مداخلت کرنا بھی چاہتی ہے تو اس کے لئے ایک الگ قانون ضروری ہے لیکن ایسا قانون فی الوقت موجود نہیں۔ فیضان مصطفی نے کہا ہے کہ شہریت قانون 1955میں کہیں بھی این پی آر کا تذکرہ موجود نہیں پھر کس بنیاد پر مرکزی حکومت این پی آ ر کروانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ این پی آر کے تحت حکومت نے جو نئے ضوابط ترتیب دئیے ہیں ان میں مقامی افسر کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ کسی بھی شہری کی شہریت کو مشتبہ قرار دے سکے۔ لیکن شہریت قانون کے تحت نچلی سطح کے افسر کو ایسے اختیار کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے دلائل کی بنیاد پر انہوں نے این پی آر کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان تمام دلائل کی بنیاد پر یہ یقین ہے کہ سپریم کورٹ میں غور کرنے کے بعد ہی فیصلہ صادر کیا جائے گا۔