افغانستان: ایک ملک دو ’صدر‘،افغانستان میں اندرونِ خانہ سیاست میں ہلچل
کابل، واشنگٹن /10مارچ (آئی این ایس انڈیا)افغان دارالحکومت کابل میں سوموار کو نئے صدر کی حلف برداری کے لیے دو متوازی تقاریب منعقد ہوئی ہیں۔نومنتخب صدر اشرف غنی اور ان کے حریف سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے الگ الگ جنگ زدہ ملک کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔اس سے ملک میں جاری سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
صدراشرف غنی کی حلف برداری کے تقریب کے دوران میں صدارتی محل اچانک دھماکوں کی آوازوں سے لرز اٹھا تھا۔اس وقت اشرف غنی تقریر کررہے تھے لیکن انھوں نے ڈائس نہیں چھوڑا اور وہیں کھڑے رہے تھے۔بعد میں سخت گیر جنگجو گروپ داعش نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔اس نے سوشل میڈیا چینلز پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ ”خلافت کے فوجیوں نے غدار اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب کو نشانہ بنایا ہے۔انھوں نے کابل میں صدارتی محل کے نزدیک دس راکٹ فائر کیے ہیں۔داعش کے اس حملے کے وقت حلف برداری کی تقریب میں افغانستان کی سرکردہ سیاسی شخصیات،اعلیٰ عہدے دار،غیرملکی سفارت کار اور امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد سمیت غیرملکی نما ئندے شریک تھے۔راکٹ پھٹنے کی آوازوں سے تقریب میں افراتفری پھیل گئی اور شرکاء بھاگ کر جانے لگے لیکن اس موقع پر صدر اشرف غنی نے ثابت قدمی دکھائی تو وہ بھی واپس آنا شروع ہوگئے۔صدر اشرف غنی کہا کہ ’میں نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہن رکھی ہے،صرف قمیص پہن رکھی ہے۔میں یہیں رہوں گا خواہ میری جان چلی جائے۔انھوں نے کہا کہ وہ مشاورت کے بعد ایک مشمولہ حکومت تشکیل دیں گے اور اس میں سیاسی نمایندوں کے علاوہ زندگی کے دوسرے طبقات کے نمایندے بھی شامل ہوں گے۔افغان صدر اشرف غنی کابل میں دو نومنتخب نائب صدور امراللہ صالح اور سرور دانش کے ساتھ اپنے عہدوں کا حلف اٹھا رہے ہیں۔اس تقریب سے چندے قبل صدارتی محل کے توسیعی حصے میں سو ُٹ زیب تن کیے عبداللہ عبداللہ نے ملک کے متوازی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔انھوں نے اس موقع پرافغانستان کی آزادی، قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے عزم اظہار کیا۔سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اب اس بات کے منتظر ہیں کہ آیا عبداللہ عبداللہ صدر اشرف غنی کے مدمقابل اپنے وزراء اور گورنر مقرر کریں گے اور کیا وہ بہ زور طاقت دفاتر پر قبضے کریں گے۔امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے آخری لمحات تک ان دونوں متوازی صدور میں مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہے ہیں۔افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے 18 فروری کو صدر اشرف غنی کی دوسری مدت کے لیے کامیابی کا سرکاری اعلان کیا تھا۔افغانستان میں صدارتی انتخابات کے لیے 28 ستمبر 2019 کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔حتمی سرکاری نتائج کے مطابق صدر اشرف غنی نے 923592 (50۰64 فی صد) ووٹ حاصل کیے تھے۔ان کے حریف ملک کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے 720841 (39۰52 فی صد) ووٹ حاصل کیے تھے۔شکست خوردہ عبداللہ عبداللہ نے صدارتی انتخابات کی پولنگ کے دوران میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں اور فراڈ کے الزامات عاید کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے جائز مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک وہ انتخابی نتائج کو تسلیم بھی نہیں کریں گے۔واضح رہے کہ ان صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب بہت کم رہا تھاجبکہ جرمنی کی مہیا کردہ ووٹنگ مشینوں کے پولنگ کے روز بروقت فعال نہ ہونے اور نقائص کی وجہ سے لاکھوں افغان اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکے تھے۔افغان صدر کی حلف برداری سے دس روز قبل 29 فروری کو طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ میں طویل مذاکرات کے بعد ایک سمجھوتہ طے پایا تھا۔اس کے تحت افغانستان سے آیندہ 14 ماہ میں تمام تیرہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا لیکن اس سے قبل طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوں گے۔ وہ ملک کا نظم ونسق چلانے کے لیے شرائط وضوابط طے کریں گے۔نیز طالبان امریکی اور افغان فورسز کے خلاف حملے روک دیں گے اور وہ القاعدہ ایسے گروپوں کو تشدد آمیز سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے۔