ٹرمپ انسانی حقوق اور بیلسٹک پروگرام کے ذریعے ایران کا بازو مروڑیں گے
واشنگٹن، 12؍جنوری(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)توقع ہے کہ امریکی صدر جوہری معاہدے کے حوالے سے خفگی کے باوجود معاہدے کے تحت تہران پر سے اٹھائی جانے والی پابندیاں دوبارہ عائد نہیں کریں گے۔ تاہم اْن کا حتمی فیصلہ جمعے کے روز سامنے آئے گا جو کانگریس کی جانب سے عائد کردہ معاہدے کی دوبارہ سے توثیق کی تاریخ ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ٹرمپ کے سامنے دیگر اختیارات نہیں۔ اس حوالے سے ممکنہ منظرنامے یہاں ذکر کیے جا رہے ہیں۔
بہت سے ماہرین یہ توقع کر رہے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ آئندہ عرصے کے دوران نئی پابندیوں کا ایک مجموعہ عائد کرے گی۔ اس کے لیے ایران کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بیلسٹک میزائلوں سے متعلق تجربات، مشرق وسطی میں ایرانی مداخلت اور دیگر سائبر خلاف ورزیوں کو ذریعہ بنایا جائے گا۔اس سلسلے میں واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے محقق جے سولیمن کا کہنا ہے کہ ان میں بہت سی پابندیوں میں ایسے افراد اور اداروں کو نشانہ بنایا جائے گا جن پر جوہری پابندیاں لاگو نہیں ہوئیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آئندہ پابندیوں کی لپیٹ میں آنے والے بعض ادارے وہ ہو سکتے ہیں جن پر سے جوہری پروگرام سے متعلق پابندیاں اٹھائی گئیں۔ایسے میں جب کہ امریکی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ قبل ازیں جن اداروں پر سے پابندیاں اٹھائی گئی تھیں اْن پر اب مختلف پابندیاں عائد کرنا درست ہے۔ تاہم یورپی یونین اور ایران کا بھی یہ کہنا ہے کہ معاہدے کے مطابق ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ادھر فاؤنڈیشن فار ڈیفنس ڈیموکرسیز کے ایک محقق کے مطابق جوہری معاہدے نے بعض کمپنیوں کو پابندیوں کی فہرست سے خارج کر دیا جس کے نتیجے میں یورپی اور ایشیائی باشندوں کو ایران کے ساتھ لین دین کی اجازت مل گئی جب کہ امریکیوں کو ابھی تک اس کی ممانعت ہے۔ محقق کا مزید کہنا ہے کہ "امریکا نے 2013 میں ایرانی نیوز ایجسنی پر پابندیاں عائد کی تھیں اور پھر جوہری معاہدے سے قبل طے پانے والے عارضی سمجھوتا طے ہونے پر ان پابندیوں کو اٹھا لیا۔ ٹرمپ انتظامیہ ان پابندیوں کو دوبارہ عائد کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے اداروں کو ہدف بنایا جا سکتا ہے جن کو اس سے قبل پابندیوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ ان اداروں کا ایران کے جوہری پروگرام سے کوئی تعلق نہیں تاہم اس طریقے سے تہران پر دباؤ میں اضافہ کیا جائیگا۔
ایک دوسرا منظرنامہ یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ جوہری پروگرام سے متعلق سخت ترین پابندیوں کو دوبارہ عائد کر دے جو ایران کے مرکزی بینک اور ایران کی تیل کی فروخت کو بھی لپیٹ میں لے لیں گی۔ تاہم اس منظرنامے کا امکان نسبتا کم ہے اس لیے کہ یہ امریکا کی جانب سے جوہری معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہو گی۔محقق جے سولیمن کے مطابق یورپی ممالک ایرانی نظام کے محافظ بن گئے ہیں اور مظاہروں کے حوالے سے جوابی کارروئی پر تہران کو تنقید کا نشانہ بھی نہیں بنا رہے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں اندیشہ ہے کہ کہیں امریکا اس بین الاقوامی اتفاق رائے کو جوہری معاہدہ منسوخ کرنے کا ذریعہ نہ بنا لے۔
جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے تو وہ ایسے قانون کی تیاری کر رہی ہے جس سے جوہری معاہدہ مضبوط ہو سکے۔ اس واسطے
معاہدے کی تاریخ تنسیخ کو ختم کرنے اور معاہدے میں ترامیم کی کوشش کی جائے گی جو ایران کو بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے سے روک دے۔ اس کے علاوہ ایسے بعض تقاضوں کو بھی ختم کرنا جو معاہدے کے مستقل طور پر جاری رہنے کی توثیق سے متعلق ہیں۔ اس طرح ہر نوّے روز کے بعد امریکی انتظامیہ کی جانب سے جوہری معاہدے پر کاربند رہنے کے ارادے کے حوالے سے سوالات جنم لیں گے۔