طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کا پانچواں دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاسر ندیم الواجدی
ملت اسلامیہ کی تاریخ کے ایک اہم ترین مقدمے: طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کی کارروائی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پانچویں دن وکلاء دفاع نے اپنے دلائل جاری رکھے اور ملت اسلامیہ کا بھر پور دفاع کیا۔
وکیل اعجاز مقبول نے کہا "کہ اسلام میں نکاح محض فریقین کے درمیان ایک عقد ہے اور عورت کو حق ہے کہ وہ اپنی شرائط کے ساتھ یہ عقد کرے"۔ انھوں نے کہا کہ "عورت کے پاس چار راستے ہیں، وہ اسپیشل میرج ایکٹ 1958 کے تحت نکاح کرے، اس صورت میں زبانی طلاق واقع ہی نہیں ہوگی، دوسرا اختیار یہ ہے کہ عورت نکاح نامے میں یہ شرط لگا سکتی ہے کہ مرد اس کو 3 طلاق نہیں دے گا۔ تیسرا راستہ طلاق تفویض کا ہے عورت خود بھی 3 طلاق دینے کا اختیار حاصل کر لے اور چوتھی بات یہ ہے کہ وہ یہ شرط لگا سکتی ہے کہ طلاق ثلاثہ دیے جانے کی صورت میں مہر کی رقم بطور جرمانہ کے بڑھ جائے گی"۔ اعجاز مقبول کی یہ دلیل اتنی مضبوط ہے کہ اس کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں حکومت کی اس دلیل کا بھی جواب ہے کہ طلاق ثلاثہ صنفی مساوات کے خلاف ہے، ساتھ ہی اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ نکاح کا قرآنی معیار یہی ہے کہ وہ ایک عقد ہے اور کنٹریکٹ کس طرح ختم ہوگا یہ فریقین کی شرائط پر منحصر ہے، کورٹ اس میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل یوسف ہاشم مچھالا نے عدالت میں بورڈ کی منظور کردہ قرارداد بھی پیش کی جس کے مطابق "طلاق ثلاثہ ایک گناہ ہے اور جو اس کا ارتکاب کرے اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے"۔ اس تجویز کے پیش کیے جانے سے یقینا یہ پیغام جائے گا کہ بورڈ ان مظلوم خواتین کے تعلق سے بھی سنجیدہ ہے، وہ صرف مرد کے حق طلاق ہی کے لیے نہیں لڑ رہا ہے۔
بورڈ کے وکلا کے بعد جمعیت علمائے ہند کے وکیل رام چندرن نے عدالت کے سامنے ایک مضبوط دلیل پیش کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کے مسلک کے مطابق تین طلاق کے بعد شوہر بیوی کا ساتھ رہنا درحقیقت زنا ہے جو کہ ایک سنگین گناہ ہے۔ عدالت طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دے کر ایک مسلمان کو گناہ پر مجبور نہیں کرسکتی۔ ایک سیکولر کورٹ مسلمان کو یہ حکم بھی نہیں دے سکتی کہ وہ دوسرا مسلک اختیار کرلے۔ یہ دلیل بھی تیکنیکی اعتبار سے نہایت مضبوط ہے اور ان لوگوں کو جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ طلاق ثلاثہ دین کا حصہ نہیں ہے، چونکہ زنا سے بچنا یقینا دین کا حصہ ہے۔
وکلاء دفاع کے درمیان اس وقت تضاد نظر آیا جب عدالت نے وکیل رام چندرن سے پوچھا کہ آیا اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت نکاح کرنا غیر اسلامی ہے، رام چندرن نے جواب دیا کہ ہاں! یہ غیر اسلامی ہے، لیکن کپل سبل نے فورا کہا یہ غیر اسلامی نہیں ہے، جس کے بعد رام چندرن نے اپنا جواب واپس لیا۔ جمعیت کے وکیل رام چندرن آج پھر پوری تیاری سے کورٹ کے سامنے پیش ہوے تھے، انھوں نے حکومت کو یہ کہتے ہوے کٹہرے میں کھڑے رکھا کہ ابھی تک اس کے وکلا نے یہ ثابت نہیں کیا طلاق ثلاثہ غیر اسلامی ہے، وہ صرف عورت کے مظلوم ہونے کو بنیاد بناکر چل رہی ہے جب کہ شریعت میں اس کا حل موجود ہے۔
وکلاء دفاع نے اس کے علاوہ مزید دلائل بھی عدالت کے سامنے پیش کیے اور ملت اسلامیہ کا مقدمہ بڑے سلیقے کے ساتھ پیش کیا۔ عدالتی کارروائی کے آخر میں اٹارنی جنرل نے کپل سبل کی اس دلیل کا جواب دیتے ہوئے کہ طلاق ثلاثہ 1400 سال سے شریعت کا حصہ ہے کہا کہ "اگر انسان کی قربانی 1400 سال سے جاری ہونے تو کیا اس کو برقرار رکھا جاسکتا ہے"۔ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل کا یہ مضبوط ترین دفاع تھا جو درحقیقت اعجاز مقبول، یوسف مچھالا، رام چندرن اور کپل سبل کے دلائل کے سامنے ایک عام آدمی کی نظر میں بھی بے حیثیت ہے۔
اگر دلائل کو سامنے رکھا جائے تو ملت اسلامیہ کا موقف کارروائی کے پانچویں دن مضبوط نظر آیا۔ امید ہے کہ چھٹے اور آخری دن بھی یہ برتری باقی رہے گی اور حکومت اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوپائے گی۔