ملک کو یکساں تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے: کنہیا کمار تعلیمی کنونشن سے ماہرین واہم شخصیات کا خطاب
بنگلورو،7؍اگست(ایس او نیز) ملک میں جب ٹیکس کے لئے یکساں پالیسی اپنائی جاسکتی ہے تو پھر تعلیم کے لئے کیوں نہیں۔ حالانکہ ملک کی ترقی کے لئے تعلیم کا عام ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لئے مرکزی حکومت کو چاہئے کہ اس سلسلہ میں خصوصی توجہ دے اور پورے ملک میں تعلیم کو لے کر یکساں پالیسی تیار کی جائے۔ ان خیالات کا اظہار سٹی ریلوے اسٹیشن کے پاس آل انڈیا فورم فاررائٹ ٹو ایجوکیشن کے زیر اہتمام منعقدہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی طلبہ تنظیم کے سابق صدر کنہیا کمار نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے کہ ملک کی ترقی میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا رول انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اس لئے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کے لئے یکساں تعلیمی پالیسی بنائی جائے۔ جس سے ملک کے تمام بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے مواقع فراہم ہوسکے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پرائیویٹ کالجوں میں فیس اس قدر زیادہ ہے کہ غریب والدین پریشان ہوجاتے ہیں۔ بعض والدین فیس ادا نہیں کرنے پر اپنے بچوں کی تعلیم کو مجبوراً روک دیتے ہیں۔ اس لئے ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس سلسلہ میں سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ ماہرین تعلیم اور اعلیٰ حکام سے انہوں نے اپیل کی ہے کہ وہ حکومت کو اس کے لئے مشورے دیں اور اس کی سفارش کریں کہ تعلیم کو عام کیا جائے۔ مسٹر کنہیا کمار نے اپنے خطاب میں کہا کہ تعلیم کو عام کرنے میں حکومت تساہلی سے کام لے رہی ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ تعلیم کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ حالانکہ اس سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہے۔ کنونشن کا دوسرا سیشن شکسکرا بھون میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر انیل سدگوپال نے کہا کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تعلیم کو مہنگاکردیا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سارے ہونہار نوجوان تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہیں۔ یا پھر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے ملازمت کا پیشہ اختیار کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔کارپوریٹ گھرانوں نے ملک پر قبضہ جمانا شروع کردیا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر انیل نے کہا کہ ملک کے حالات اس قدر خراب ہورہے ہیں کہ تعلیم یافتہ نوجوان پریشان ہیں۔ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارپوریٹ گھرانوں کی اجارہ داری بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس لئے ملک کے سنجیدہ قسم شہریوں کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ اس معاملہ پر غور وخوض کریں اور تعلیم کے شعبہ پر سے اجارہ داری ختم کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ فورم کے رکن مدھوپرساد نے فورم کے اغراض ومقاصد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی مختلف تعلیمی اداروں میں قوانین شکنی ہورہی ہیں۔ سیاسی طاقتوں کے ذریعہ اصول وضوابط کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ فورم کے ذریعہ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان تمام خرابیوں پر روک لگائے جائیں۔ ملک کی یونیورسٹیوں میں زعفرانی رنگ مسلط کیا جارہاہے۔ اس کے لئے ماہرین تعلیم اور سکیولر مزاج شخصیات کو جڑنا ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں اپنی جگہ اٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ فسطائی قوتوں کو تعلیمی اداروں سے دور بھگایا جائے۔