العبادی کا تلعفر آپریشن کے آغاز کا اعلان ، الحشد الشعبی ملیشیا بھی شریک
بغداد20اگست(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے اتوار کو صبح سویرے تلعفر شہر کو واپس لینے کے لیے فوجی آپریشن کے آغاز کا اعلان کر دیا۔ تلعفر شمالی عراق کے صوبے نینوی میں داعش تنظیم کا آخری سب سے بڑا گڑھ ہے۔سرکاری ٹی وی پر آپریشن کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے العبادی نے داعش تنظیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کے سامنے خود کو حوالے کرنے یا پھر مارے جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ العبادی نے واضح کیا کہ آپریشن میں عراقی فوج ، وفاقی پولیس ، انسداد دہشت گردی فورس ، الحشد الشعبی ملیشیا اور مقامی فورسز شریک ہیں اور ان کو بین الاقوامی اتحاد کی معاونت بھی حاصل ہے۔تلعفر کو واپس لیے جانے کا آپریشن عراقی وزیر اعظم کی جانب سے موصل شہر کو آزاد کرا لیے جانے کے اعلان کے دو ماہ بعد شروع ہوا ہے۔ موصل کی آزادی کے لیے کیا جانے والا عسکری آپریشن نو ماہ تک جاری رہا۔
تلعفر ضلعہ نینوی صوبے کا سب سے بڑا ضلعہ شمار ہوتا ہے۔ یہ موصل شہر سے 70کلومیٹر مغرب میں شام کی سرحد کی جانب واقع ہے۔ اس کی آبادی کی تعداد تقریبا 2لاکھ ہے جس میں اکثریت شیعہ ترکمانوں کی ہے۔داعش تنظیم نے تقریبا تین سال قبل تلعفر کے وسط میں جھڑپوں اور وہاں سے عراقی افواج کے انخلاء کے بعد 15جون 2014 کو اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ بعد ازاں یہاں سے بڑی تعداد میں مقامی آبادی کی نقل مکانی دیکھنے میں آئی۔زمینی ذرائع کے مطابق عراقی سرکاری فورسز 4سمتوں سے پھیل گئیں۔ انہوں نے شدت پسندوں کے سامنے فرار کے تمام راستے بند کر دیے اور توپ خانوں سے شدید گولہ باری شروع کر دی۔یہ تمام فورسز المحلبیہ اور العیاضیہ کے علاوہ موصل کے جنوب مغرب سے تلعفر کے اطراف تک پھیلے ہوئے 47دیہات کے محاذوں پر داعش کا مقابلہ کریں گی۔ تلعفر کے مرکز میں عراقی انسداد دہشت گردی فورس ، نائنتھ آرمرڈ ڈویژن اور ریپڈ ایکشن فورس داخل ہو گی۔مبصرین کے مطابق رقبے کے چھوٹے ہونے کے سبب تلعفر کا معرکہ موصل آپریشن سے کم وقت میں انجام تک پہنچ جائے گا۔ امریکی اور عراقی فوجی قیادت کا کہنا ہے کہ داعش تنظیم کے تقریبا 2000جنگجو اب بھی شہر میں موجود ہیں۔