دنیا میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ، ہلاکتوں میں کمی
نیویارک، 15نومبر (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)عالمی دہشت گردی انڈیکس (GTI) کی بدھ کے روز جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس دنیا کے زیادہ ممالک میں دہشت گردانہ حملے دیکھے گئے، تاہم ہلاکتوں کی تعداد میں کمی نوٹ کی گئی۔عالمی دہشت گردی انڈیکس کے مطابق یہ مسلسل دوسرا برس ہے، جب دنیا بھر میں دہشت گردانہ حملوں کی نتیجے میں ہلاکتوں میں کمی دیکھی گئی ہے، تاہم اس انڈیکس میں بتایا گیا ہیکہ گزشتہ برس دہشت گردانہ حملوں سے زیادہ تعداد میں ممالک متاثر ہوئے ہیں۔آسٹریلیا کے ادارہ برائے معاشیات اور امن کی جانب سے جاری کردہ اس انڈیکس میں کہا گیا ہے کہ 2014ء دہشت گردانہ حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کا نکتہ عروج تھا۔ گزشتہ برس شدت پسندانہ حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں 25 ہزار چھ سو 73 رہ?ں، جو سن 2014ء کے مقابلے میں 22 فیصد کم ہیں۔اس انڈیکس کے مطابق شام، پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کے باعث ہونے والی ہلاکتوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔گلوبل ٹیرارزم انڈیکس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس 77 ممالک ایسے تھے، جہاں کم از کم ایک خون ریز حملہ ہوا۔ یہ تعداد گزشتہ 17 برس کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
اس انڈیکس کے مطابق ’’مسلم شدت پسندی کے خلاف جنگ میں یہ بات ایک مثبت موڑ کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس سے جڑے دہشت گردانہ واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔‘‘اس بابت سب سے زیادہ بہتری نائجیریا میں دیکھی گئی، جہاں گزشتہ برس شدت پسند تنظیم بوکوحرام کے حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں میں 82 فیصد کمی آئی۔ تاہم پچھلے سال عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے حملوں میں 40 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔اس انڈیکس میں دہشت گردی کے پھیلاؤ میں اضافے کو ’پریشان کن‘ قرار دیا گیا ہے۔ انڈیکس کے مطابق سن 2016 میں سن 2015 کے مقابلے میں دہشت گردی کے شکار ہونے والے ممالک میں قریب ایک درجن کا اضافہ ہوا۔اس انڈیکس میں خبردار کیا گیا ہیکہ شام اور عراق سے پسپا ہونے والے جہادی دیگر ممالک میں شدت پسندانہ گروپوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بابت افغانستان کی صورت حال ’پیچیدہ‘ رہی، جہاں طالبان کی جانب سے عام شہریوں پر حملوں میں کمی مگر سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا۔انڈیکس میں کہا گیا ہے کہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لیے پچھلا سال (علاوہ سن (2001 دہشت گردانہ حملوں کے اعتبار سے سن 1988 کے بعد سب سے زیادہ خون ریز رہا۔