چینی کانگریس کی منظوری، شی جن پنگ ’تاحیات صدر‘
بیجنگ 11مارچ(ایس او نیوز؍ آئی این ایس انڈیا )چین نے صدر کے عہد ہ صدارت کی حد پر عائد پابندی ختم کر دی ہے جس کے بعد سے موجودہ صدر شی جن پنگ ممکنہ طور پر تاحیات صدر رہ سکتے ہیں۔اس آئینی تبدیلی کی منظوری نیشنل پیپلز کانگریس نے اتوار کے روز اپنے سالانہ اجلاس کے موقعے پر دی۔کل 2964 ارکان پر مشتمل اس ادارے کے دو ارکان نے اس تبدیلی کے خلاف ووٹ دیا، جب کہ تین نے رائے شماری سے اجتناب کیا۔چین میں سنہ 1990 کے بعد سے صدر کے عہدے کی میعاد مقرر ہے، تاہم صدر شی نے روایت کے برخلاف اکتوبر میں ہونے والے کمیونسٹ پارٹی کانگریس میں اپنے جانشین کا اعلان نہیں کیا۔اس کی بجائے انھوں نے اپنی سیاسی قوت کو تقویت دینے پر توجہ مرکوز رکھی اور پارٹی نے ان کے نام اور سیاسی آئیڈیالوجی کو آئین کا حصہ بنانے کے لیے ووٹ دیا۔ اس طرح شی جن پنگ کا مرتبہ پارٹی کے بانی ماؤ زے تنگ کے برابر ہو گیا ہے۔فروری کے اواخر میں پارٹی نے چین کے آئین سے یہ حد ختم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ صدر شی کے عہدے کی مدت سنہ 2023 میں ختم ہو رہی ہے۔کانگریس بظاہر چین کا سب سے طاقتور قانون ساز ادارہ ہے اور اس کی حیثیت دوسرے ملکوں کے پارلیمان کی طرح ہے لیکن عملی طور پر اسے 'ربر سٹامپ' ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسے جو کہا جائے، وہ منظور کر دیتی ہے۔تاہم شی جن پنگ کو تاحیات صدر مقرر کرنے کا معاملہ کسی حد تک متنازع بھی رہا ہے۔ لیکن چین میں عائد سینسر کی وجہ سے اس موضوع پر ہونے والی بحث سامنے نہیں آ رہی ہے۔تاہم ایک ناقد نے ایک کھلا خط لکھ کر اس آئینی تبدیلی کی تجویز کو 'مذاق' کہا ہے۔ایک سرکاری اخبار کے سابق مدیر لی داتونگ نے کہا کہ صدر اور نائب صدر کے عہدے کی حد ختم کرنے سے انتشار جنم لے گا۔ انھوں نے یہ خط نیشنل کانگریس کے بعض ارکان کو بھیجا ہے۔انھوں نے بی بی سی چائنا کو بتایاکہ میں اسے مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اپنے دوستوں سے بات کر رہا تھا اور ہمیں اس پر سخت غصہ ہے۔ ہمیں اپنی مخالفت کی آواز اٹھانا ہو گی۔ البتہ سرکاری میڈیا نے اس تبدیلی کو ایسی اصلاحات قرار دیا ہے جن کی ایک مدت سے ضرورت تھی۔چین میں شی جن پنگ پر براہِ راست تنقید نہیں کی جاتی بلکہ ان کی نمائندگی کے لیے ونی دا پو کارٹون استعمال ہوتا ہے۔ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے اس تبدیلی کا خیرمقدم کیا ہے۔ انھوں نے گذشتہ ہفتے کہا تھا: 'تاحیات صد میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت زبردست بات ہے۔ ہمیں بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔ تاہم بعد میں جب اس پر سخت تنقید ہوئی تو ٹرمپ نے کہا کہ میں تو مذاق کر رہا تھا۔گذشتہ اکتوبر کمیونسٹ پارٹی نے شی جن پنگ کے نظریات کی منظوری دی تھی۔ اب سکول، کالجوں اور سرکاری کارخانوں میں یہ نظریات پڑھائے جائیں گے۔ کمیونسٹ پارٹی کے مطابق یہ جدید چین کا نیا باب ہے۔شی سنہ 2012 میں صدر بنے تھے اور جیسے جیسے چین علاقائی سپر پاور کے طور پر ابھرتا چلا گیا، شی جن پنگ اپنی سیاسی قوت بڑھاتے چلے گئے۔انھوں نے بدعنوانی کے خلاف سخت مہم چلائی ہے اور پارٹی کے دس لاکھ سے زیادہ ارکان کو سزا دی ہے۔ اس سے ان کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہوا۔اسی دوران چین میں کئی شخصی آزادیوں کو سلب کر لیا گیا اور سرکاری نگرانی اور سینسرشپ کے پروگراموں میں اضافہ کر دیا گیا۔