کرناٹک میں سیاسی رسہ کشی پرگورنروجوبھائی والا پرسب کی نظریں مرکوز
میسورو،15؍مئی ( ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا ) کرناٹک میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملنے کے بعد اب جس کا سب سے اہم رول ہوگا، وہ کرناک کے گورنر وجوبھائی والا ہیں۔ ان کے فیصلوں پر اب سب کی نظریں مرکوز ہوں گی کہ وہ کیا کرتے ہیں۔کس پارٹی کو حکومت سازی کے لئے مدعو کرتے ہیں۔
شمال مشرقی ریاستوں میں نتائج آنے کے بعد بی جے پی کی حکمت عملی سے شکست سے دوچار ہونے والی کانگریس کرناٹک میں الیکشن کے نتائج آنے سے پہلے ہی سرگرم ہوگئی ہے۔ انتخابی نتائج مکمل ہونے سے قبل ہی کانگریس نے جے ڈی ایس کو حکومت بنانے کے لئے بغیر شرط حمایت دینے کا اعلان کردیا۔
کانگریس کے دو سینئر لیڈران غلام نبی آزاد اور اشوک گہلوت کو کانگریس ہائی کمان نے کل ہی بنگلور بھیج دیا تھا تاکہ میگھالیہ اور گوا کی غلطی دوبارہ نہ ہونے پائے۔ اس معاملے میں غلام نبی آزاد نے سبقت بھی حاصل کی اور بی جے پی سے پہلے ہی انہوں نے جے ڈی ایس سے رابطہ کرکے حمایت دینے کا اعلان کردیا۔
کرناٹک میں انتخابی نتائج ظاہر کررہے ہیں کہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے، لیکن اکثریت کے 113 اعدادوشمار سے دور ہے۔ دوسرے نمبر پر کانگریس ہے اور تیسرے مقام پر جے ڈی ایس ہے۔ اگر کانگریس اور جے ڈی ایس کی سیٹوں کو ملا دیا جائیتو وہ حکومت بنانے کے اعدادوشمار تک پہنچ جاتی ہیں۔
حالانکہ ابھی تک جے ڈی ایس نے اپنا اسٹینڈ واضح نہیں کیا ہے۔ اس نے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ کنگ میکر بننے کے بجائے خود کنگ بننا پسند کرے گی۔ سیٹوں کی موجودہ حالت میں بھی اس نیاسی اسٹینڈ کو دوہرایا ہے۔
اب کرناٹک کے گورنر کیا کریں گے، کیا وہ سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے بی جے پی کو بلائیں گے۔ یا پھ دوسرے متبادل کی طرف دیکھیں گے۔
حالانکہ گوا اور منی پور میں کانگریس کو بڑی جماعت ہونے کے بعد بھی حکومت بنانے کا موقع وہاں کے گورنر نے نہیں دیا تھا۔ بجائے اس کے ان پارٹیوں کو حکومت بنانے کے لئے مدعو کرلیا، جو گٹھ جوڑ کے ساتھ حکومت بنانے کے لئے اکثریت کا دعویٰ پیش کررہے تھے۔ تقریباً! یہی صورتحال کرناٹک مین ہے۔ اگر جے ڈی ایس خود بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کے لئے نہیں آتی ہے تو گورنر کیا کریں گے؟