حکومت نے منی پور میں ہندوستان کا قتل کیا ہے: راہل گاندھی
نئی دہلی، 9/اگست (ایس او نیوز/ایجنسی) کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے منی پور تشدد معاملے پر مودی حکومت کے کلاف عدم اعتماد کی تحریک پر بولتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کسی کی نہیں سنتے، محض دو کی سنتے ہیں۔ ایک امت شاہ کی اور دوسرے اڈانی کی سنتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ راون بھی دو لوگوں کی ہی سنتا تھا، ایک میگھ ناتھ اور دوسرا کمبھ کرن۔ اور سری لنکا کو بھگوان ہنومان نے نہیں بلکہ راون کے تکبر نے جلایا تھا۔
آج لوک سبھا میں اپنی بات شروع کرتے ہوئے راہل گاندھی نے سب سے پہلے اسپیکر کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کی لوک سبھا کی رکنیت بحال کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان سے معافی مانگنا چاہتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ انہوں نے زور سے بولا جس سے آپ کو اور آپ کے رہنما کو تکلیف ہوئی۔ (برسراقتدار طبقہ کو) پریشانی ہوئی کیونکہ میں نے اڈانی پر بولا تھا۔ راہل گاندھی نے مزید کہا کہ ’’بی جے پی کے لوگوں کو آج ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میری تقریر کا موضوع اڈانی جی نہیں ہیں کیونکہ میری تقریر آج دوسری سمت میں جا رہی ہے۔‘‘
راہل نے کہا کہ ’’رومی نے کہا تھا جو لفظ دل سے آتے ہیں وہ دل میں جاتے ہیں اس لئے آج میں دماغ سے نہیں دل سے بولنے جا رہا ہوں ۔ میں آپ لوگوں پر اتنا حملہ نہیں کرونگا۔ ایک دو گولے ضرور مارونگا لیکن زیادہ نہیں۔‘‘
راہل نے بھارت جوڑو یاترا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’130دن کے لئے ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گیا اور میں اکیلا نہیں تھا۔ میں سمندر کے تٹ سے کشمیر کی برفیلی پہاڑیوں تک گیا اور یاترا جاری ہے۔ بہت لوگوں نے پوچھا کہ راہل تم کیوں چل رہے ہوں ۔ جب وہ پوچھتے تھے تو شروعات میں میرے منہ سے الفاظ نہیں نکلتے تھے۔ شائد اس وقت مجھے ہی گہرائی سے نہیں معلوم تھا۔ کچھ دنووں میں مجھے سمجھ آنے لگا ، جس چیز کے لئے میں مرنے کے لئے تیار ہوں ، مودی جی کی جیل جانے کے لئے تیار ہوں وہ یہ ہے ۔ میں سالوں سے آٹھ دس کلومیٹر دوڑتا تھا تو مجھے اس میں مجھےلگا کہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن جب تکلیف ہوئی تو غرور ختم ہو گیا ۔ جب بھی یہ ڈربڑھتا تھا تو کوئی نہ کوئی مجھے طاقت دیتا تھا۔ ایک چھوتی سی لڑکی نے خط دیا کہ وہ اس کے ساتھ چل رہی ۔ کسان کیا ہزاروں لوگ آئے۔ اور پھر میں بول ہی نہیں پایا کیونکہ وہ لوگ اتنا بولتے تھے۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’پھر ایک کسان آیا اور کسان نے ہاتھ میں روئی لی ہوئی تھی ، میری آنکھ میں دیکھ کر اس نے روئی کا بنڈل دیا، یہی بچا ہے میرے کھیت کا اور کچھ نہیں بچا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو بیما کا پیسہ ملا جس کا کسان نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ بڑے سرمایہ داروں نے مجھ سے چھین لیا۔ جو اس کے دل میں بات تھی وہ میرے دل میں آئی، اس کی شرم اوراس کی بھوک مجھے سمجھ آئی۔ اس کے بعد یاترا بالکل بدل گئی۔ مجھے صرف وہ سنائی دیتا تھا جو سامنے والا بولتا تھا باقی کچھ نہیں سنائی دیتا تھا ۔ سب لوگ اس ملک کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں لیکن یہ ملک صرف لوگوں کی آواز ہے اور ہمیں اگر اس آواز کو سننا ہے تو ہمیں غرور، نفرت اور اپنے خوابوں کو ترک کرنا ہوگا۔ ‘‘
راہل نے کہا کہ ’’ میں منی پور گیا اور وزیر اعظم منی پور نہیں گئے کیونکہ ان کے لئے منی پور ہندوستان نہیں ہے ، منی پور کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ منی پور کے کیمپس میں خواتین اور بچوں سے بات کی جو ہمارے وزیراعظم نے آج تک نہیں کی۔‘‘ انہوں نے بتا یا کہ ’’ ایک خاتونسے جب پوچھا کہ کیا ہوا تب اس خاتون نے بتایا کہ اس کا اکلوتے بچے کو اس کے سامنے گولی ماری اور وہ اس کی لاش کے ساتھ لیٹی رہی، پھر اسے ڈر لگا تو اس نے گھر چھوڑ دیا ، اس نے بتایا کہ وہ خالی ہاتھ وہاں سے آئی ہےاس نے بس اس کےپاس جو تصویر تھی وہ نکالی اور دکھائی۔دوسری خاتون سے جیسے ہی پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا تو ایک سیکنڈ میں وہ کانپنے لگی اور وہ اس کے تصور سے ہی بے ہوش ہو گئی۔ انہوں نے منی پور میں کا قتل کیا ہے۔‘‘
راہل گاندھی نے کہا کہ ’’جیسے میں نے تقریر کے آغاز میں کہا کہ ہندوستان عوام کے دل کی آواز ہے اور اس آواز کا قتل آپ نے منی پور میں کیا اور بھارت ماتا کا قتل کیا ۔ آپ حب الوطن نہیں ہیں آ پ ملک کے غدار ہیں ۔ آ پ کے وزیر اعظم منی پور نہیں جا سکتے کیونکہ آپ نے ملک کا قتل کیا ہو آپ بھارت ماتا کے رکھوالے نہیں ہو آپ بھارت ماتا کے قاتل ہو۔ میں منی پور میں اپنی ماں کے قتل کی بات کر رہا ہوں ۔ ایک میری والدہ یہاں بیٹھی ہے ایک منی پور میں ہے ۔ ہندوستانی فوج ایک دن میں قابو کر سکتی ہے ۔ ‘‘