ایس بی آئی کی پھرسرزنش، 3 دن کی مہلت۔ الیکٹورل بونڈ کا خصوصی نمبر مخفی رکھنا اوراس کیلئے بہانے تراشنا اسٹیٹ بینک کو مہنگا پڑا، سپریم کورٹ نےجمعرات تک کا وقت دیا
نئی دہلی، 19/مارچ (ایس او نیوز /ایجنسی) الیکٹورل بونڈ کے معاملے میںایس بی آئی کی پیر کو اس وقت پھر شامت آگئی جب اس معاملے پر سپریم کورٹ میں شنوائی ہوئی۔ ملک کے سب سے بڑے بینک نے سپریم کورٹ کی سخت ڈانٹ کے بعد الیکٹورل بونڈ کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم تو کردیں مگر اُن پر موجود وہ نمبر چھپا لیا جس سے یہ معلوم ہوسکتاتھا کہ کس بونڈ سے کس پارٹی کو چندہ ملا ہے۔ یہ معاملہ پیر کو سپریم کورٹ میں زیر سماعت آیا توایس بی آئی نے بہانہ تراشی کی کوشش کی مگر اس کی ایک نہیں چلی۔ کورٹ نے سختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرکزی بینک کو الیکٹورل بونڈ سے متعلق ہر طرح کی معلومات ۲۱؍ مارچ تک الیکشن کمیشن کو فراہم کردینے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو ہدایت دی کہ وہ جمعرات (۲۱؍ مارچ) کو ہی شام ۵؍ بجے تک الیکشن کمیشن میں حکم کی مکمل تعمیل کا حلف نامہ داخل کردے اور حلفیہ بتائے کہ اس نے کچھ بھی نہیں چھپایا ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کی قیادت والی آئینی بنچ جس میں جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا بھی ہیں، نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ معلومات عام اور کچھ مخفی نہیں رکھ سکتی۔ عدالت نے سبھی تفصیلات عام نہ کرنے پر بینک پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ اس نے عدالت کے اس حکم کی پوری طرح تعمیل نہیں کی جس میں اس کو انتخابی بونڈس سے متعلق تمام تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ کورٹ نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابی بونڈس کو غیر آئینی قرار دینےکے بعد ایس بی آئی کو الفا نیومیرک نمبروں (بونڈ پر خصوصی نمبر) سمیت تمام تفصیلات کا انکشاف کرنے کی عدالت کی ہدایت کی تعمیل کرنی ہوگی۔‘‘
پیر کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے شکایت کی کہ انتخابی بونڈ اسکیم کو ختم کرنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کا سوشل میڈیا پر مختلف افراد کے ذریعہ غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دعویٰ کیاکہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی بونڈس کے انکشاف سے متعلق اعدادوشمار کو توڑ مروڑ کر اور ایک ایجنڈہ کے تحت پیش کیا جارہاہے ۔ انہوں نے دہائی دی کہ اس سے سپریم کورٹ پر بھی حرف آتا ہے تاہم کورٹ نے کہا کہ اسے ان باتوں کی کوئی فکر نہیں کہ اس کے فیصلوں کی کیسی تشریح کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ’’بطور جج ہم صرف قانون کی حکمرانی اور آئین کے مطابق کام کرتے ہیں۔‘