بینگلورو 24 / فروری (ایس او نیوز) این ڈی اے کی زیرقیادت مرکزی حکومت کی جانب سے ٹیکس مختص کرنے کے معاملے میں کرناٹکا کے ساتھ ہوئی زیادتی، زرعی فصلوں کے ایم ایس پی کا مطالبہ اور دیگر معاملات کے خلاف ریاستی کانگریس حکومت کی طرف سے قانون ساز اسمبلی میں مرکزی حکومت کے خلاف جو قراردادیں منظوری کے لئے پیش کی گئیں اس کی مذمت کرتے ہوئے جمعہ کے دن بی جے پی اور جے ڈی ایس اراکین نے اسمبلی میں احتجاج کیا اور ایوان کے ہال میں دھرنا دیا ۔
قرار داد واپس لینے کا مطالبہ : حزب اختلاف کے لیڈر آر اشوک نے یہ مسئلہ اٹھایا، اور کہا کہ مرکزی حکومت کے خلاف قرار داد پیش کرنا "ایجنڈے میں شامل نہیں تھا ۔ وزیر قانون ایچ کے پاٹل کا اچانک ایوان میں اس قرارداد کو لانے کا عمل کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ ایوان کے تقدس اور قواعد کے خلاف ہے ۔" اپوزیشن لیڈر نے مطالبہ کیا کہ مرکزی حکومت کے خلاف قرارداد کو فوری واپس لیا جائے ۔ آر اشوک نے اس پر بھی سوال اٹھایا کہ کانگریسی اراکین پارلیمان نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ان مسائل کو کیوں نہیں اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اگلے اجلاس میں اس قرارداد کو پیش کرے اور اس پر بحث ہونے دیا جائے ۔
سبق پڑھانے کی ضرورت نہیں : اس دوران ریوینیو وزیر کرشنا بیرے گوڈا نے مداخلت کی اور بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "جب آپ لوگوں کی حکومت تھی تو آپ لوگوں نے گئو ہتھیا مخالف قانون سمیت کیا کیا فیصلے کس کس طرح سے کیے تھے وہ سب ہمیں بھی معلوم ہے ۔ اُس وقت کیا تم لوگوں نے قوانین، قواعد اور ضوابط کے مطابق کام کیا تھا ؟ اب ہمیں سبق پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔"
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ چلنا چاہئے۔ جب بی ایس ایڈی یورپا وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے مرکزی حکومت سے احترام کے ساتھ خطاب کیا تھا ۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ کبھی بھی تضحیک آمیز انداز میں مخاطب نہیں کیا گیا تھا ۔ کرناٹک کانگریس ہر وقت موجودہ وزیر اعظم مودی کو برا بھلا کہہ رہی ہے ۔ اس تنازعے سے 7.5 کروڑ کنڑا عوام متاثر ہوں گے ۔
کانگریسی وزراء نے آواز نہیں اٹھائی تھی : سابق وزیر اعلی بسواراج بومئی نے کہا کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی ہیں جنہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے چند ماہ بعد ریاستوں کو فنڈز کی منتقلی کو 32 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کر دیا ۔ بومئی نے کہا کہ "اگرچہ ریاستوں نے ٹیکسوں کی منتقلی میں 40 فیصد حصہ کا مطالبہ کیا تھا، لیکن کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے اپنے 10 سال کے دور میں اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی تھی ۔" انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس حکومت کے پانچ وزراء نے 15ویں مالیاتی کمیشن کی میٹنگ میں شرکت کی اور ریاست کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر اعتراض کر رہے ہیں ۔
ہمیں لائسنس کی ضرورت نہیں ہے : اس پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کانگریسی اراکین نے پوچھا کہ ریاست سے منتخب ہونے والے بی جے پی کے اراکین نے پارلیمنٹ میں کیا کوئی آواز اٹھائی تھی ؟
وزیر قانون ایچ کے پاٹل نے کہا کہ "فنڈز کی تقسیم پر ریاست کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے اس کے خلاف مرکزی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے سرکاری قرارداد پاس کی گئی تھی ۔ یہ کرناٹک ریاست کے مفاد میں ہے ۔ ہمیں قراردادیں پیش کرنے کے لیے آپ سے لائسنس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔"
اسمبلی کے کنویں میں دھرنا : بی جے پی اور جے ڈی ایس کے اراکین اسمبلی کنویں میں پہنچ گئے اور کانگریس حکومت کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے ۔ جیسے ہی ایوان میں افراتفری مچ گئی، اسپیکر یو ٹی قادر نے کارروائی پیر کی صبح تک ملتوی کر دی ۔
جمعرات کو کرناٹک قانون ساز اسمبلی نے دو قراردادیں منظور کیں - پہلی ٹیکسوں میں کمی اور ریاست کرناٹکا کو دیگر فنڈ مختص کرنے میں ہو رہی نا انصافی کے خلاف تھی اور دوسری قرارداد تمام فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے حصول کے لیے احتجاج کرنے والے کسانوں کی حمایت میں تھی ۔ بی جے پی اور جے ڈی ایس کے ایم ایل ایز کے احتجاج اور ایوان کے کنویں میں اتر کر دھرنا دینے کے درمیان ہی یہ دونوں قراردادیں اسمبلی میں منظور کی گئیں۔
سیشن میں ایک دن کی توسیع : حالانکہ اسمبلی کا موجودہ بجٹ سیشن 23 فروری کو ختم ہونا چاہیے تھا، مگر اسپیکر یو ٹی قادر نے بتایا کہ چونکہ جمعہ کے دن بجٹ پر بحث کے تعلق سے وزیر اعلیٰ سدارامیا کو جواب دینا تھا اور ووٹ آن اکاونٹ حاصل کرنا تھا، مگریہ کارروائی مکمل نہیں ہو سکی اس لئے جمعہ کے دن صبح کے وقت منعقد ہوئی مشاورتی کمیٹی نے اس سیشن کو ایک دن کی توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس طرح 26 فروری کو سیشن کا آخری دن ہوگا ۔ پتہ چلا ہے کہ وزیراعلیٰ سدرامیا کو گلے میں سوزش اور بخار ہونے کی وجہ سے وہ بجٹ پر جواب نہیں دے سکے تھے۔ اب پیر صبح 9:30 بجے سدرامیا بجٹ بحث پر اپنا جواب پیش کریں گے۔