شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں کی کمزورآواز
شہریت قانون کے خلاف پورے ہندوستان میں کہیں پرتشدد توکہیں پرامن احتجاجات اور مظاہرے جاری ہیں - سنگین حالات کے سامنے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے گھٹنے ٹیکنے کا اشارہ بھی دے دیا ہے -انہوں نے شمال مشرق کے احتجاجیوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ کرسمس کے بعد شہریت قانون میں کچھ ترمیم کی جاسکتی ہے - سرکار چاہے کتنی بڑی دشمن اور متعصب ہوعوام کے پرزور احتجاج کے سامنے بسا اوقات گھٹنے ٹیک ہی دیتی ہے - لیکن اولین شرط یہی ہے کہ وہ مظاہرے یقینی طورپر سرکار کو جھکانے کے لئے ہوں نہ کہ اپنی تنظیم اور اپنی پارٹی کو چمکانے کے لئے - اتحاد واتفاق اور برادران وطن کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلنے کی تلقین کرنے والی مسلم جماعتیں اور تنظیمیں شہریت قانون کے خلاف سلسلہ وار اور سرکار کو اپنے مطالبات کے آگے جھکنے پر مجبورکرنے والے نہ تو احتجاج کررہی ہیں اور نہ ہی ان برادران وطن کے ساتھ اعلانیہ طورپر ساتھ آرہی ہیں جو مودی سرکار کو اپنے آگے جھکانے کی طاقت رکھتے ہیں - گذشتہ جمعہ کو جمعیۃ العلماء (م) کی جانب سے پورے ملک میں احتجاج کیا گیا اور اپنے غصہ کا اظہارکرتے ہوئے کہا گیا کہ شہریت قانون نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوستانی آئین،یہاں رہنے والے غرباء ومساکین کے خلاف ہے لیکن کیا ایک ان کے احتجاج سے مودی کی سخت گیر سرکار اپنا فیصلہ واپس لے لے گی؟ نہیں ہرگز نہیں - جمعیۃ العلماء نے شمال مشرقی خطہ میں ہورہے مسلسل احتجاجات اورمظاہروں کو کیوں نہیں اپنے لئے مشعل راہ بنایا -جس بڑے پیمانے پر جمعیۃ العلماء نے احتجاج شروع کیا تھا وہ اگر چند دن ہی جاری رہتے تو مودی حکومت کے تخت ہل جاتے اور وہ اپنی شبیہ بہتر کرنے کے لئے اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوتی - افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جمعیۃ العلماء کی جانب سے کئے گئے اعلانات کو دیگر مسلم تنظیموں نے پرزور حمایت کیوں نہیں کی- کیوں نہیں جمعیۃ العلماء (الف) جماعت اسلامی ہند اور اہل سنت والجماعت کی بڑی بڑی تحریکوں نے ریاستی سطح پر اپنے رفقاء کو احتجاج میں شامل ہونے کی ہدایت جاری کی - روز مرہ ہونے والے واقعات پر پریس ریلیز جاری کرنے والی مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے قائدین کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ دستور کے تحفظ کے لئے بھی ایک پلیٹ فارم پرنہیں آتے -انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ مودی، امیت شاہ اور چند ہندو انتہا پسند پورا ہندوستان نہیں ہیں - ہندوستان ایک بہترین تہذیب وثقافت رکھنے والا ملک ہے - ہندوستان پھولوں کاایک باغ ہے جہاں ہر طرح کے پھول کھلے ہوئے ہیں -کسی بھی پھول کی ایک پتی کوتوڑنے سے باغ کی خوبصورتی متاثرہوسکتی ہے -اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں تمام مذاہب کے لوگ آج بھی سکون اور اطمینان سے رہنے کے خواہشمند ہیں لیکن یہاں کی چند انتہا پسند اور فرقہ پرست لوگوں نے ہندوستان کے جمہوری تانے بانے کو تار تار کرنا شروع کردیا ہے - مودی کی قیادت والی بی جے پی سرکار نے گذشتہ دنوں شہریت قانون بناکر جہاں ایک طرف مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھا ہے وہیں دوسری طرف ہندوستانی آئین اور یہاں کی جمہوریت کو ختم کرنے کی منظم سازش کی ہے - شہریت قانون لاکر مودی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر حملہ کیا ہے - اس معاملہ میں وہاں موجود تمام منتخب ممبران اسی طرح گنہگارہیں جس طرح مودی اور امیت شاہ، کیونکہ شہریت قانون ہندوستانی تہذیب اوراس کی ثقافت پر نہ صرف حملہ ہے بلکہ آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ نظریات اور ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کی شرمناک سوچ کو ملک کے 130 کروڑلوگوں پر مسلط کرنا ہے جس کی اجازت موجودہ ہندوستانی آئین نہیں دیتا -مودی اور امیت شاہ نے شہریت قانون لاکر تمام لوگوں کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ ہندوستان ہندوراشٹر ملک ہے -اس کا اعلان امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ ہندوستان کی تقسیم مذہبی بنیاد پر ہوئی تھی اب سوال یہ ہے کہ یقیناً ہندوستان ہندوراشٹر بن چکا ہے یا اس کی طرف ابھی گامزن ہے - سکیولر کردار کی حامل پارٹیوں اور لوگوں نے وقت رہتے ہوئے اگرمودی اور امیت شاہ کی اس سوچ کو غلط ثابت نہیں کیا تو یہ یقین کیجئے کہ ہندوستان کو رسمی طورپر ہندوراشٹر بنادیا گیا ہے -صرف اعلان باقی ہے -اگر اسی طرح شہریت قانون یا اس جیسی آئین مخالف مودی سرکار کی پالیسیوں کے خلاف خاموشی چھائی رہی یا اپنے احتجاج کو محدود دائرے میں اورکمزورسطح پر کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر آہ وبکا سے کوئی فائدہ نہیں - پورے ہندوستان میں اپنے حقوق کے حصول اور شہریت قانون کے خلاف احتجاجات جاری ہیں - بنگلورو شہر کے فریڈم پارک میں بھی بڑے مظاہرے اور بڑے احتجاجات کا منصوبہ یہاں کی بڑی مسلم جماعتوں نے بنایا تھا لیکن محض انانیت کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا - آئندہ کیا ہوگا اس طرح کا نہ کوئی اعلان ہوا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی بڑی سرگرمیاں نظر آرہی ہیں - ایسے حالات اگرمسلم تنظیموں اورجماعتوں کے ہوں تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ سرکاریں مسلمانوں کے مطالبات کے سامنے اسی طرح گھٹنے ٹیکیں گی جس طرح شمال مشرقی ریاستوں میں ہورہے مسلسل احتجاج کے سامنے مودی حکومت نے گھٹنے ٹیک دئے ہیں - یہ احتجاج مسلمانوں کیلئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تمام دستاویزات کے باوجود اکثریت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے بابری مسجد کی زمین مندرکی تعمیرکیلئے دے دی گئی تو آخر دستاویزات کی بنیاد پر این آر سی کی لڑائی مسلمان کیسے جیت سکتے ہیں -موجودہ وقت میں احتجاج، مظاہرے اورتمام کو ساتھ لے کر آواز بلند کرنا ہی ایک واحد راستہ ہے -امید ہے کہ مسلم تنظیمیں اورجماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوستانی آئین اور گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کیلئے ایک پلیٹ فارم پر آکر ایسی سلسلہ وارصدابلند کریں گی جس کے آگے مرکزی سرکار گھٹنے ٹیک دے گی-