اب انڈیا پوسٹ بھی خسارے میں 15000 کروڑ کے خسارے کے ساتھ بی ایس این ایل اور ایئر انڈیا کو پیچھے چھوڑا
نئی دہلی، 16 اپریل(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا) اب سرکاری کمپنی انڈیا پوسٹ (بھارتی ڈاک) نے خسارے کے معاملے میں بی ایس این ایل اور ایئر انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔مالی سال 2018۔19 میں انڈیا پوسٹ کو کل 15000 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔گزشتہ تین مالی سال میں انڈیا پوسٹ کا خسارہ بڑھ کر 150 فیصد کی برتری ہوئی ہے،اب یہ سب سے زیادہ خسارے والی سرکاری کمپنی ہو گئی ہے۔اس خسارے کی وجہ سے ملازمین کو تنخواہ اور دیگر الاؤنس دینے کے لئے ہونے والے اخراجات کو بتایا جا رہا ہے۔اس شے پر انڈیا پوسٹ کو اپنے سالانہ آمدنی کا 90 فیصد تک خرچ کرنا پڑتا ہے۔خسارے کے لئے بدنام دوسری سرکاری کمپنی بی ایس این ایل کے لیے مالی سال 2018۔19 میں 7500 کروڑ روپے اور ائر انڈیا کو مالی سال 2017۔18 میں 5337 کروڑ روپے کا خالص نقصان ہوا ہے۔انڈیا پوسٹ کو مالی سال 2018۔19 میں 18000 کروڑ روپے کا ریونیو حاصل ہوا تھا، جبکہ اس تنخواہ اور مراعات میں 16620 کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے تھے۔اس کے علاوہ بی ایس این ایل کو پنشن پر قریب 9782 کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے تھے، یعنی اس کا کل ملازمین لاگت 26400 کروڑ روپے تک پہنچ گیا تھا۔کمپنی کا اندازہ ہے کہ مالی سال 2020 میں تنخواہ؍ مراعات پر خرچ 17451 کروڑ روپے اور پنشن پر خرچ 10271 کروڑ روپے رہے گا۔وہیں اس دوران آمدنی صرف 19203 کروڑ روپے رہنے کا اندازہ ہے،اس سے صاف ہے کہ آگے چل کر کمپنی کی حالت اور خراب ہو گی۔مصنوعات کی قیمت اور قیمت اور روایتی پوسٹ خدمات کے مقابلے میں زیادہ سستے اور تیز اختیارات موجود ہونے کی وجہ سے انڈیا پوسٹ کارکردگی بہتر بنانے اور اس آمدنی بڑھانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ مصنوعات کی قیمت بڑھانے کے علاوہ کمپنی اپنے 4.33 لاکھ کارکنوں اور 1.56 لاکھ پوسٹ آفس کے نیٹ ورک کے طور پر ای کامرس اور دیگر ویلیو ایڈڈ سروسز میں امکانات کھنگال سکتی ہے۔انڈیا پوسٹ اپنے ہر پوسٹ کارڈ پر 12.15 روپے خرچ کرتا ہے لیکن اس کے صرف 50 پیسے یعنی لاگت کا چار فیصد ہی ملتا ہے۔اوسطا پارسل سروس کی لاگت 89.23 روپے ہے لیکن کمپنی کو اس کا صرف نصف ہی ملتا ہے۔بک پوسٹ، سپیڈ پوسٹ اور رجسٹریشن وغیرہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔اخراجات سیکرٹری کی صدارت میں اخراجات فنانس کمیٹی نے حال ہی میں محکمہ ڈاک سے کہا تھا کہ یوزرس سے فیس وصولنے کے لیے کمپنی کو خود کفیل ہونا چاہئے کیونکہ مرکز کے بجٹ میں اس طرح کے سالانہ خسارہ شامل نہیں ہوتا۔