ہندوستان کی موجودہ سماجی و سیاسی صورتحال اور اس کا حل ؟ از:اے ۔ سعید 

Source: S.O. News Service | By Safwan Motiya | Published on 31st August 2016, 12:16 PM | آپ کی آواز |

ہمارے ملک کی سماجی و سیاسی صورتحال دن بہ دن خطرے سے دوچار ہے۔ ہندتوا فاشسٹ تنظیمیں، بی جے پی ، این ڈی اے حکومت اور سرکاری مشینری ہمارے ملک کے عوام کے درمیان رائج ترقی پسند جمہوری خیالات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں لفظ ، "عدم رواداری" کا زیادہ چرچا ہورہا ہے۔ ملک کئی تبدیلیوں اور بحران کے دور سے گذررہا ہے۔ این ڈی اے حکومت کی ترقی کا نعرہ اب تقسیم کی سیاست میں تبدیل ہوگیا ہے۔ مودی حکومت تخلیقی ایجنڈے سے ہٹ کرہندوتوا انتہا پسندوں کی گرفت میں ہے۔ بی جے پی حکومت کا مرکز میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے ملک میں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جس سے سیکولرازم اورمساوات صرف دکھاوا بن کر رہ گیا ہے اور حکمران مشینری فرقہ وارانہ ایجنڈے کے نفاذ میں دلچسپی دکھارہی ہے۔فرقہ وارانہ منافرت اور گائے کے تحفظ کے نام پر ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں پر لگاتار حملے ہورہے ہیں۔ فسطائی طاقتیں اب یکساں سول کوڈ کے نام پر فرقہ وارانہ تنازعات پیدا کرنے کے لیے نئی چالیں چل رہے ہیں۔جبکہ راشٹریہ سویم سویک سنگھ( آر ایس ایس ) ایک "ہندو راشٹرا" کے قیام کے اس کے بنیادی نظریے سے کھبی منحرف نہیں ہوئی ہے۔ ودھیا بھارتی جو بھارت میں نجی اسکولوں کی سب سے وسیع نیٹ ورک ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے ذریعے زعفرانی سیاہی کے ساتھ تاریخ کو پھر سے لکھنے کی منظم کوشش ہورہی ہے۔ جس کے ذریعے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے ذہنوں میں ہندوتواکے بنیادی نظریات کو بھرا جارہا ہے۔ بھارتیہ سکھشا نتی آیوگ(BSNA)کو قائم کرنے کے لیے ایچ آر ڈی منسٹری کی طرف سے منظوری دیا جانا یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی کس نظریے سے متفق ہے۔ (BSNA) کو آر ایس ایس سے وابستہ شکھشا سنسکرتی اتن نیاس نے قائم کیا ہے۔ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ماضی قریب سے ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنے اور تعلیمی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اقلیتوں طبقات کو ملک میں اڑچن اور بد امنی پیدا کرنے والے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور پارسیوں کو غیر ملکی قرار دیا جارہا ہے۔ بھارت کی تقسیم کے لیے مسلمانوں کومکمل طور پر ذمہ دار ٹہرایا جاریا ہے۔ آرایس ایس کو آزادی کی جدوجہد میں مرکزی کردار ادا کرنے والی تنظیم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور ڈاکٹر کیشوا راؤ ہیگڈ یوارکا شمار جدوجہد آزادی کے قد آوار رہنماؤں میں کیا جارہا ہے۔ قومی رہنماؤں کی ایک کثیر تعداد نے اپنے بیانات میں آر ایس ایس کی تعریف کی ہے۔ سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیموں نے قومی اہمیت کے حامل 17 سے زائدتحقیقی ادارے جیسے Indian Council of Social Science Research ، Indian Council of Philosophical Research,،UGC،NCERTاورIndian Institute of Advanced Studies سمیت دیگر کئی اہم اداروں پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ 
پیسہ کی طاقت :-
نیو لیبرل پالیسیوں کو لاگو کرنے کے لیے سرمایہ دار وں ، سامراجیوں اوران کے اتحادی ساری دنیا میں نیو فاشسٹ حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ انقلابی اور جمہوری طاقتوں اور ہمارے ملک کے عوام کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس حقیقت کا بھی انکشاف ہوچکا ہے کہ آر ایس ایس ، بی جے پی ، کارپوریٹس اور میڈیا کی ملی بھگت کے نتیجے میں نریندر مودی کی بڑے پیمانے پرجیت ہوئی ہے۔ یہ بی جے پی کی جیت نہیں ہے ۔ یہ ان کارپوریٹس کمپنیوں کی جیت ہے جو نریندر مودی کو فروغ دیکر وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے کارپوریٹ ورلڈسیاست دانوں کو "اپنانے " اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ لہذا میڈیا نے نریندر مودی کو ترقی کے مسیحا کے طور پر پیش کیا تھا ، جس کے بعد خود کارپوریٹ میڈیا نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ اکیلے نریندر مودی کو تشہیر کرنے اور ان کو فروغ دینے کے لیے 30,000کروڑ روپئے سے زائدخرچ کیا گیا تھا۔ مودی حکومت اب کارپوریٹس کی خدمت میں مصروف نظر آرہی ہے ۔ جس کے نتیجے میں قیمتی عوامی اثاثے، جنگلات اور زرعی زمین پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ اس قسم کے اقدامات اقتصادی منطق کے خلاف ہے جس سے ملک کے عام عوام کی آزادی ، سلامتی اور ان کی روزی روٹی کو خطرہ لاحق ہے اور اس سے ملک کی سماجی سا لمیت کمزور ہوتی ہے۔ این ڈی اے حکومت کی طرف سے فارسٹ رائٹ ایکٹ کو کمزور اور سبوتاز کرکے کارپوریٹ اقلیت کے مفادات کو پورا کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے دفتر سے یہ کوشش ہورہی ہے کہ موجودہ جنگل ماحولیاتی ایکٹس کے قواعد و ضوابط پر غور کئے بغیر متعلقہ وزرات پر یہ دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ کچھ منصوبوں کے لیے اجازت دیں۔وزیر اعظم کے دفتر نے کچھ منصوبوں کے لیے محکمہ جنگلات سے منظوری طلب کی تھی لیکن ان منصوبوں میں فارسٹ رائٹ ایکٹ (FRA) کے تحت تمام شرائط پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت سختی سے کوشش کررہی ہے کہ موجودہ تحویل اراضی،ریہابلیشن اور ری سٹلمنٹ ایکٹ 2013میں اہم تبدیلی لاسکے۔ جس کا مقصدصنعت کاروں کو کئی طریقوں سے خوش کرنا ہے۔ با ت واضح ہے کہ ایک غریب ترین کسان زمین میں کاشت کاری کرتا ہے لیکن وہ اس کا مالک نہیں ہے۔ایسے غریب کسان کو کوئی معاوضہ نہیں مل سکے گے۔ قانون میں سماجی تشخیص حصہ کو نکال کر حکومت ایک بہت بڑے رکاوٹ سے بری ہوگئی ہے۔ اس سے قبل کے قانون کے تحت تشخیص اس لیے کیا جاتا تھا کہ کتنے لوگ اس سے متاثر ہونگے۔ لہذا زمین کے مالک کے علاوہ وہ تما م لوگ جو اس زمین پر انحصار کرتے ہیں ان کو معاوضہ دیا جانا ضروری تھالیکن اب نیا آر ڈیننس صرف جاگیر داروں کو معاوضہ دینے کو یقینی بناتا ہے۔ مزدورقانون کی ترمیم میں کم از کم اجرت ترمیم بھی شامل ہے۔ حکومت خصوصی اقتصادی زون میں اور دیگر صنعتی علاقوں میں بھی خصوصی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ،جو مزدور اور عوام مخالف قوانین ہیں۔ یہ کام مالکان کو خو ش کرنے کے لیے جار ہا ہے ، خاص طور پر کارپوریٹس کمپنیوں کے مالکان کو خوش کرنے کے لیے یہ اقدام کیا جارہا ہے ۔ این ڈی اے حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کی یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ 
بد عنوانی :-
سیاست میں مجرموں کے اثر و روسوخ کی وجہ سے بھارت میں انتظامیہ اور سماجی زندگی کے تمام شعبہ جات میں بدعنوانی کا بول بالا ہے۔ تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ پولیس اور عدلیہ بھی بدعنوانی جیسے لعنت سے آزاد نہیں ہے۔ عوام میں عدم تحفظ کا احساس کافی گہرا ہے اور ان کی عام زندگی خوفناک ماحول میں گذر رہی ہے۔ سال 2011میں ایک بین الاقوامی ایجنسی " "Transparency Internationalکی جانب سے تیار کردہ فہرست کے مطابق بھارت بدعنوانی فہرست میں 182ممالک میں 87ممالک سے آگے ہے۔ جس سے ملک کی ترقی پر منفی اثر پڑا ہے۔ عوامی سہولیات اور عوام کی فلاح وبہبودکی ترقی کے لیے مختص پیسہ عوام کے پیسے لوٹنے میں ملوث ٹھیکیداروں، سرکاری ملازمین اور سیاست دانوں کے جیبوں میں جارہا ہے۔ 
بھارت میں جمہوریت کی ناکامی :-
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ملک ہے۔ جمہوریت کو حکومت کے ایک مثالی شکل کے طور پر کیا جاتا ہے۔ جس میں لوگوں کو ان کے منتخب نمائندے نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ عوام کے لیے ، عوام کی طرف سے اور عوام کی حکومت ہے۔ یہ وہ عوامی حکومت ہے جس میں عوام کی آواز بالا تر ہے۔ قوانین عوام کے مرضی کے مطابق ہی تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ بھارت کے ہر ایک شہری کو رنگ، ذات،نسل ، مذہب ، املاک یا جنس کی بنیاد پر مبنی کسی بھی امتیاز کے بغیر ارکان اسمبلی کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے اور ایک رکن اسمبلی کے طور پر منتخب ہونے کا حق حاصل ہے۔بھارت ایک سیکولر جمہور ی ملک ہے لیکن ہمارے ملک میں وعدے اور کارکردگی کے درمیان ایک فرق ہے۔ ہم نظریاتی طور پر ہر حق سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن عملی طور پر نہیں۔ معاشر ے کا سما ج وادی تصورصرف ایک خواب میں تبدیل ہوگیا ہے۔ حقیقی جمہوریت تب ہی آسکتی ہے جب اس ملک کے عوام بیدار ہونگے اور ملک کی اقتصادی اور سیاسی شعبہ میں حصہ لیں گے۔ بھار ت آج ایک امیر آدمی کا جمہوریت ہے۔ ہماری جمہوریت امیر کے لیے ، امیر کی طر ف سے، امیروں کی طرف سے ہے۔ عوام تعلیم سے آراستہ نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے وہ اپنے ووٹ کا غلط استعمال کرجاتے ہیں۔ ان کو بہ آسانی پیسے کی طاقت پر خرید لیا جاتا ہے۔ جب تک عوام کے درمیان بڑے پیمانے پر تعلیم اور روشن خیالی عام نہیں ہوتی اس وقت تک کوئی جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔ یہاں امیر طبقہ غریب طبقہ کا استحصال کرتا ہے کیونکہ غریب طبقے کا جمہوری ڈھانچے میں کوئی اشتراک نہیں ہے۔ آج جمہوریت آزمائش کے دور سے گذر رہی ہے۔ جمہوریت ناکام نہیں ہوا ہے ، بلکہ ہم ناکام ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ میں جمہوری جذبہ،حساسیت ،کردار کی بنیاد پر صحیح معنوں میں ہندوستانی بننے کو تیار ہیں تو ہم یقینی طور پر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ا نتخابات ہمیشہ ایک مہنگا معاملہ رہا ہے اور پیسے کی کشش خاص طور پر غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں حیرت انگیزکام کرتا ہے۔ ملک کی ایک واحد پارٹی بھی جمہوری ہونے کا دعوی نہیں کرسکتی ہے۔ سیاست اب ایک کاروبار بن چکا ہے ، جہاں سرمایہ داری کرنے کے بعد اقتدار کا غلط استعمال کرکے منافع کمایا جارہا ہے۔ غیر تعلیم یافتہ عوام، قانون ساز ادارے پارلیمنٹ کے اراکین کرنسی نوٹوں سے ہی متاثر ہوتے ہیں۔ بھارت کے نام نہاد انقلابی اور جمہوری قوتیں صورتحال سے نمٹنے کے قابل نہیں بنتے ہیں۔ وہ اب بھی سامراجی، سرمایہ دارانہ اور فرقہ وارانہ طاقتوں سے عوام کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری لینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اپنے قیام کے آغاز سے ہی عوام کو اس عظیم لعنت سے آگاہ کرتی آ رہی ہے۔ ایس ڈی پی آئی مساوات،سیکوریٹی کی حصولیابی کے جدوجہد کے لیے عوام کی قیادت کرنے وا لی ایک عوامی تحریک ہے اور پسماندہ طبقات میں مناسب سیاسی شعور لانے کے لیے لگاتار کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ ہمیں عوام کو سیاست سمجھانے کے لیے ان کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ردعمل کے طور پر یا منفی ووٹنگ کے ذریعے سیاست کے حکمت عملی کو نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک پارٹی کو ہرانے کے لیے دوسری پارٹی کو شکست دینے کا رجحان سیاست کا ایک کمزور پہلو ہے۔ ایسا کرنے سے ہمیں جو مسائل درپیش ہیں ان مسائل کا حل نہیں نکالا جاسکتا ہے۔ 

کہاں ہے سیکولرازم ؟ :-
ہندوستان کے مسلمان فرقہ وارانہ فاشسٹ عناصر کی طرف سے کئے جانے والے حملوں اور حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ ناانصافی اور جانبدارنہ رویہ سے خوفزدہ ہیں۔ ہمارے ملک میں موجودہ صورتحال یہ ہے کہ فرقہ وارانہ عناصرمسلمانوں کے خلاف بشمول نسل کشی کے کسی بھی قسم کے مظالم ڈھانے کے لیے آزاد ہیں۔ بھارت میں ہوئے کسی بھی فرقہ وارانہ حملوں کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ معصوم اور بے قصور مسلمانوں کو جھوٹے الزام میں گرفتار کرکے انہیں جیلوں میں کئی سال سے مقید کرکے رکھا گیا ہے۔ بعض معاملوں میں ان کے بے گناہی ثابت کی گئی ہے۔ لیکن ان نوجوانوں کو بعد میں دوسرے جھوٹے مقدمات کے تحت جیلوں میں دوبارہ بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ایک منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کی توہین کرنے اور انہیں الگ تھلگ رکھنے کی سازش ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اس سازش میں حصہ لیتی ہیں۔ مسلمان طبقہ اس ملک میں سب سے زیادہ فرقہ وارانہ عناصر کے نشانے پر ہے۔ حکومت ، انتظامیہ اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے مسلسل طور پر مسلم مخالف رجحان اتنا بڑھ چکا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے ہر فرد کے دل میں گہرا زخم لگا ہوا ہے۔یہاں تک کے سیکولر پارٹیاں اور ان کے لیڈران نے بھی اہم مواقع پر ان کا فرقہ وارانہ چہرا دکھاد یا ہے۔ مسلمان ہر قسم کے تحفظ سے محروم ہیں۔مذہبی عقائد پر چلنے کی آزادی سے محروم ہیں اور مسلمان ہی زیادہ تر اور ہمیشہ کالے قوانین اور ریاستی دہشت گردی کے شکار ہوتے آرہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ عناصر کو فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر قتل ، لوٹ مار، عصمت دری،آتش زنی،وغیرہ کی عملی طور پر کسی بھی حد تک جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ 
مسلم سیاست : -
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سیاسی مستقبل کی تعمیر کے لیے تمام مواقع فراہم ہیں۔ لیکن اس طرح کے ایک مستقبل کے لیے فرقہ وارانہ جذبات بھڑکاکریا انتخابات کے دوران نئی سیاسی پارٹیاں بنا کر کامیابی حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے تابناک سیاسی مستقبل کے لیے کمیونٹی کی اصلاح اور ان کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی طور پر تقویت حاصل کرنے کے لیے حقیقت میں مسلمانوں کو خود کو بدلنا ہوگا۔ فی الحال ہر جگہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقوں میں قومی مسلم ایجنڈے کی بات ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں اجلاس بھی منعقد کئے جارہے ہیں۔لیکن کہیں بھی مسلمان اس میں کامیابی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ کوئی بھی کمیونٹی ملک کے سیاسی میدان میں حصہ لیے بغیر اپنے حقوق اور وقار کی حفاظت نہیں کرسکتی۔ حکمرانی، قانون سازی اور انتظامیہ میں شمولیت جمہوری نظام کا ایک حصہ ہے۔ جہا ں تک ہندوستانی مسلمانوں کا معاملہ ہے ان کے سامنے ایسے مواقع میسر ہیں جس سے وہ منظم ہوکر سیاسی طور پر با اختیار بن سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم سیاست ملک کے کچھ حصوں میں مضبوط ہورہی ہے لیکن مسلمانوں کے ووٹوں کے اثر ورسوخ میں کمی آرہی ہے۔ عام طور پر IUML،MIM،اور AIUDFنے گزشتہ انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی آئی ہے۔ کیرلا میں سوائے UDFکے، دوسری ریاستوں کی علاقائی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو اقتدار میں شریک کرنے پر غور نہیں کرتی ہیں، ان پارٹیوں کا یہ رویہ سیاسی محاذوں کے تشکیل کے دوران واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ انتخابات میں مسلم امیدواروں کی نامزدگی اور وزرات کی تشکیل کے دوران ان کو اہمیت نہیں دیا جاتا ہے۔ مسلم امیدوار جو سیکولر پارٹیوں کی طرف سے امیدوار کے طور پر انتخابات کا سامنا کرتے ہیں انہیں متوقع تعداد میں ووٹ حاصل نہیں ہوتے۔ کچھ سیکولر پارٹیوں کی ٹکٹ پر انتخابات میں جیتنے والے نام نہاد مسلم نمائندے شاذو نادر ہی اپنے کمیونٹی کے حفاظت اور مفاد کے لیے اپنے اقتدار کا استعمال کرتے ہیں۔ جن علاقوں میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے وہاں سرکاری مشینری مسلم ووٹوں کی اہمیت کو گھٹانے کے لیے مختلف حکمت عملی اپناتی ہیں۔ ووٹر فہرست سے نام غائب ہوجاتے ہیں، حلقہ بندی کی وجہ سے مسلم ووٹ بکھر جاتے ہیں۔ مسلم آبادی والے حلقوں کو ایس سی ریزرویشن حلقوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ 
دلت سیاست :-
بھارت میں دلت طبقہ صدیوں سے ہندو ذات پات کے نظام کا شکار ہے۔ قانون سازی اور اس پر عمل در آمد کی نگرانی کے لیے خصوصی کمیشن کے قیام کے باوجوددلت طبقہ متعدد اقسام کے ذات برادری تعصب ،سفاکانہ تشدد،عصمت دری اور قتل سمیت کئی مظالم کا شکار ہے۔ ذات پات کا تعصب اور ذات کی بنیاد پر مبنی جرائم ملک بھرمیں برقرارہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کے بنیادی اغراض ومقاصد سے انحراف کی وجہ سے دلت کمیونٹی میں مایوسی کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ان میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ سیکوریٹی،حقوق کا تحفظ، ترقی اور دلت کمیونٹی کو زندگی کے مین اسٹریم میں لانے کے لیے BSP یا کوئی دوسری پارٹی جیسے LJP جو اب BJP کیمپ میں ہیں ان کے ہاتھوں میں دلت کمیونٹی غیر محفوظ ہے۔ سیاسی رہنما اور سیاسی پارٹیاں دلتوں کے مسائل کو اس لیے اٹھار ہے ہیں تاکہ ان کا سیاسی کیریئر محفوظ اور مامون رہے۔ ملک میں آئے دن دلتوں کے خلاف مظالم بڑھ رہے ہیں ۔ ان کے وقار اوراعتماد کو کچلنے کے لیے منصوبہ بند سازشیں جاری ہیں۔ 
حکومت میں غیر تسلی بخش نمائندگی :-
عام طور پر لو گ ان کے علاقے سے رکن اسمبلی، اراکین پارلیمان یا وزراء کی تعداد پر بہت خوش ہوجاتے ہیں جو ان کے رشتہ دار،برادری ، پارٹی یا ان کے حلقہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ جبکہ جو لوگ مسلم شعبہ کی نمائندگی کرتے ہیں وہ کمیونٹی کی ضرورت اور امید کے مطابق اپنے فرض منصبی نبھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ جس سے لوگ اکثر اس قسم کے سیاستدانوں سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ایسے نمائندے قانون ساز اداروں میں مسلم مسائل اٹھانے یا سیاسی طور پر معاملات اٹھانے میں یا تو تذبذب کا شکار ہوتے ہیں یا لا چار ہوتے ہیں۔ ایک رکن پارلیمان جن کو پارٹی رہنماپارلیمنٹ میں بات کرنے کا موقع تک نہیں دیتے ایسے رکن پارلیمان ایوان میں اپنے کمیونٹی کے مسائل یا جذبات کیسے پیش کرسکیں گے؟۔رکن پارلیمان یا رکن اسمبلی بن کرعوام کے کاز کے لیے اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے ان ذمہ داریوں کو شخصی اعزاز سمجھ لیا گیا ہے۔ عوامی نمائندے اقتدار کے ذریعے جزوی طور پر ایم پی یا ایم ایل اے فنڈ کا استعمال کرتے ہیں لیکن جب بات پالیسی امور کی آتی ہے اس وقت وہ اقتدار کاصحیح استعمال کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔وہ اپنے رہنماؤں کے رویے پر سوال اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے یا پارٹی کے بنیادی قیادت کی طرف سے اثرانگیز پالیسی اور فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے کا ان کو کھبی موقع نہیں ملتا ہے۔ پارٹیوں میں اس وقت تک اندرونی جمہوریت قائم نہیں رہے گی جب تک اراکین پارٹی کو پارٹی پالیسی میں تبدیلی لانے کے لیے کچھ کوشش کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے ایسی پارٹیوں سے جمہوریت مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ 
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا :-
ملک میں منفی سیاست کرتے آرہے پسماندہ ذاتوں اور اقلیتوں کے لیے ایک مثبت سیاسی متبادل کے طور پر سن 2009میں سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کا قیام کیا گیاتھا۔ پارٹی مثبت سیاست کے پیغام کو عام کرتے ہوئے خصوصی طور پر غریبوں ، کسانوں، مزدوروں ، آدی واسی ، دلت اور مسلمانوں پر مشتمل پسماندہ طبقات کو سیاسی طور پر مناسب حصہ داری دلانے کے مقصد کو لیکر سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہے۔ ملک کے تقریبا تمام حصوں میں پارٹی اپنی بنیاد ڈالنے میں کامیاب رہی ہے۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اپنے قیام کے روز اول سے غریبوں، مزدوروں، مسلمانوں، دلتوں، قبائیلیوں اور دیگر محروم ، مظلوم اور پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے خصوصی توجہ دیتی آرہی ہے۔ پارٹی ہر طرح سے سیکولرازم کے اصولوں کی پاسداری کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ پارٹی کا وعدہ ہے کہ فاشزم، آمرانہ رجحانات اور عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف جدوجہدکی قیادت کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے ۔ ایس ڈی پی آئی ملک کو ایک فلاحی ریاست میں بدلنے کے تصور کو یقینی بنانے اور ملک کے تمام شہریوں کو موثر عوامی تقسیم نظام (PDS) ،مفت تعلیم، صحت عامہ فراہم کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کی پابند ہے۔ ایک ہندوستانی شہری جس طرح ملک کی بالادستی کی خواہش رکھتا ہے اسی نہج پر سو شیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اپنی سیاسی سفر پر گامزن ہے۔ ملک کے موجود ہ سماجی و سیاسی صورتحال کے تحت ایک ہندوستانی شہری جس نظریے کی تشہیر کرنا چاہتا ہے سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا بھی وہی نظریے کی تشہیر کرنا چاہتی ہے۔ وقت کا تقا ضا ہے کہ جو لوگ اس ملک کے عوام کا احترام کرتے ہیں وہ وسیع پیمانے پر طاقتور تحریکات کے ذریعے جمہوری تنظیموں اور افراد کو متحد کرنے کے لیے آگے آئیں۔ حکمران طبقات کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا دفاع کرنے کے مقصدسے اور بالخصوص زعفران فاشزم جو سامراجی ملکوں اور کارپوریٹ اداروں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکے ہیں ان کا دفاع کرنے کے لیے میدان میں آئیں۔سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اس اقدام اور تحریک کے لیے صف اول میں کھڑا ہوگا۔ (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)

ایک نظر اس پر بھی

تبلیغی جماعت اور اس کے عالمی اثرات ..... از: ضیاء الرحمن رکن الدین ندوی (بھٹکلی)

​​​​​​​اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“

سماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائل۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین ، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک ...

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ...

بھٹکل: تعلیمی ادارہ انجمن کا کیسے ہوا آغاز ۔سوسال میں کیا رہیں ادارے کی حصولیابیاں ؟ وفات سے پہلےانجمن کے سابق نائب صدر نے کھولے کئی تاریخی راز۔ یہاں پڑھئے تفصیلات

بھٹکل کے قائد قوم  جناب  حسن شبر دامدا  جن کا گذشتہ روز انتقال ہوا تھا،   قومی تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین ، قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم سمیت بھٹکل کے مختلف اداروں سے منسلک  تھے اور  اپنی پوری زندگی  قوم وملت کی خدمت میں صرف کی تھی۔بتاتے چلیں کہ  جنوری 2019 میں ...

تفریح طبع سامانی،ذہنی کوفت سے ماورائیت کا ایک سبب ہوا کرتی ہے ؛ استراحہ میں محمد طاہر رکن الدین کی شال پوشی.... آز: نقاش نائطی

تقریبا 3 دہائی سال قبل، سابک میں کام کرنے والے ایک سعودی وطنی سے، کچھ کام کے سلسلے میں جمعرات اور جمعہ کے ایام تعطیل میں   اس سے رابطہ قائم کرنے کی تمام تر کوشش رائیگاں گئی تو، سنیچر کو اگلی ملاقات پر ہم نے اس سے شکوہ کیا تو اس وقت اسکا دیا ہوا جواب   آج بھی ہمارے کانوں میں ...