بھٹکل: تعلیمی ادارہ انجمن کا کیسے ہوا آغاز ۔سوسال میں کیا رہیں ادارے کی حصولیابیاں ؟ وفات سے پہلےانجمن کے سابق نائب صدر نے کھولے کئی تاریخی راز۔ یہاں پڑھئے تفصیلات
بھٹکل کے قائد قوم جناب حسن شبر دامدا جن کا گذشتہ روز انتقال ہوا تھا، قومی تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین ، قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم سمیت بھٹکل کے مختلف اداروں سے منسلک تھے اور اپنی پوری زندگی قوم وملت کی خدمت میں صرف کی تھی۔بتاتے چلیں کہ جنوری 2019 میں انجمن حامئی مسلمین نے اپنی صد سالہ تقریب منائی تھی جس کے فوری بعد بھٹکل جماعت اسلامی ہند کے متحرک رکن اور معروف سماجی کارکن مولانا ایس ایم زبیر مارکٹ نے مرحوم جناب حسن شبر دامدا سے ملاقات کی تھی اور اُن سے قومی تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین کے تعلق سے تفصیلی گفتگو کی تھی، مولانا ایس ایم زبیر مارکٹ کے بقول ، انہوں نے اُس ملاقات کو ایک رپورٹ کی شکل میں ترتیب دیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ ۔۔۔۔ (ادارہ)
انجمن کے سو سال پورے ہوئے، انجمن ایک پودے سے شجرہائے سایہ دار بنا، انجمن سو سال کی اس مدت میں جوان ہوا، اور اس کی صد سالہ تقریبات بڑی دھوم دھام سے منائی گئی، 3 جنوری 2019 بروز جمعرات دو بجے انجمن آباد سے تعلیمی کارواں نکلا، جوشمس الدین سرکل پر سے ہوتا ہوا سلطانی محلہ محمد علی روڈ پر سے گزرتا ہوا انجمن ہائی اسکول میں جمع ہوا، اس میں الفطرہ کے ننھے طلباء بھی تھے اس کے کے علاوہ ہر فیکلٹی کے طلباء و اسٹاف موجود تھے، انجمن کی انتظامیہ اولڈ بوائز اور کثیر تعداد میں عوام نے اس کارواں میں شرکت کی، یہ ایک تعلیمی marathon تھا آج سے سو سال قبل جناب ایف اے حسن جاکٹی کی صدارت میں بشمول آئی یس صدیق ا یم ایم صدیق اور کچھ مٹھی بھر احباب نے سر سید احمد ِخان کی عصری تعلیمی تحریک کی بیداری سے متاثر ہوکر انجمن حامی مسلمین کی بنیاد رکھی تھی، جو تعلیمی سفر پانچ افراد سے شروع ہوا تھا آج سو سال کے بعد وہ بڑھتے بڑھتے ہزاروں دلوں کی آواز بن گیا، آگر آپ تصور کی نگاہ سے دیکھیں تو اس تعلیمی کارواں میں ان لوگوں کو دیکھیں گے جنھوں نے
اس چمن کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے، اس میراتھن میں جناب حاجی حسن صاحب، یس یم سید محی الدین مولانا، یس یم سید محی الدین امباری، جناب محمد حسن قاضیا صاحب، جوکاکو شمش الدین صاحب، یس یم سید محمد، یس یم بی، جناب عثمان حسن ماسٹر، یس یم یحیی،جناب محی الدین منیری ، محتشم عبد الغنی، معلم ظفرعلی، دامودی محمد اسماعیل، جناب عبداللہ دامودی وڈلے ایس ایم،کو دیکھیں گے جناب ا یس ایم سید ِخلیل الرحمنُ کو بھی اس کارواں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
آج انجمن کے اس تابناک سورج کی شعاعیں گھرگھر پہنچی ہوئی ہیں اس کی کوئی کرن ایسی نہیں ہے جو کسی گھر میں داخل نہیں ہوئی ہو ہم نے 3 جنوری 2019 کو ایک زبردست جلوس دیکھا بقول شاعر : میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ۔۔۔۔۔۔۔ لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا
انجمن کی جب بنیاد پڑی بھٹکل میں غربت تھی دقیانوسیت تھی اندھی عقیدت میں لوگ مبتلا تھے رسوم و رواج کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انجمن کی روشنی سے رسوم و رواج کی گھٹاٹوپ تاریکیاں ِِختم ہوئیں یہ صرف انجمن کا قوم پر احسان ہے کہ گمراہیوں میں اس نے قوم کو نشان راہ دکھائی انجمن جو ایک چھوٹے سے مدرسہ سے شروع ہوا تھا 1945 میں ہائی اسکول بن گیا 1968 میں آرٹس اینڈ سائنس کالج کی بنیاد ڈالی گئی گو کہ ابتدا میں کالج کے قیام پر مخالفت کا طوفان کھڑا کیا گیا ابھی اس کا آغاز ہو کر ایک سال بھی نہیں گزرا تھا ااسے بند کرنے کی آوازیں ااٹھنے لگیں لیکن قوم کے ان رہنماوں نے بڑی حکمت کے ساتھ اس صورتحال پر قابو پالیا 1969 میں انجمن کا دستور ترمیم کرنے کے بعد نافذ العمل ہوا۔
اس دستور کی روشنی میں پہلی انجمن کی انتظامیہ تشکیل پائی، اس کے صدر یس یم سید محی الدین مولانا تھے، قاضیا محمد حسن صاحب صدر اول تھے، اور جناب یس یم سید محی الدین امباری صدر دوم تھے، جناب یس یم یحیی صاحب جنرل سکریٹری تھے یہ نئے جذبات نئے عزائم اور بے پناہ حوصلوں کے ساتھ انجمن کی خدمت کے لئے آئے تھے ان کے مد نظر ایک وژن تھا اس پر عمل آوری کے لئے انھوں نے اپنی بساط کے مطابق انتھک کوشش کی لڑکوں کی تعلیم کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ تعلیم کا نام ہی لڑکوں کی تعلیم تھی، اس سے خواتین مستثنٰی تھیں عورتوں کی تعلیم کے بارے میں سوچنے کا اس وقت کوئی حق نہیں تھا لیکن اس دور میں یہ تبدیلی آئی کہ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے لئے بھی یکساں حق تسلیم کیا گیا 1945 میں ہائی اسکول کے بچوں کو تعلیم میں ترقی دے کر دسویں کلاس تک کے لئے گنجائش پیدا کی گئی لیکن لڑکیوں کے لئے کوئی متبادل انتظام نہیں تھا 1969 تک لڑکیوں کے لئے ساتویں کلاس تک کی تعلیم تھی، خواتین نصف انسانیت ہے۔
جب ایس یم یحیی صاحب جنرل سیکریٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے، انھوں نے سوسائٹی میں اس کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا، کہ عورت کے بغیر معاشرہ کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں ہے، معاشرہ کی گاڑی کے مرد و عورت دونوں ہی پہیے ہیں، آپ نے پہلا ایجنڈہ عورتوں کی تعلیم سے متعلق رکھا، جس کی ضرورت کو سب نے محسوس کیا، ورنہ یہ لڑکیاں ساتویں کلاس سیکھ کر گھر میں بیکار وقت گزاری کرتیں تھیں، اور اس وقت تک وہ انتظار میں بیٹھیں رہتیں، جب تک کہ ان کی شادی نہ ہوجاتی،اس وقت قوم کے پاس ایسی قابل خواتین نہیں تھی جو ہائی اسکول کی ذمہ داری کو سنبھال سکے، قوم کی ایک بیٹی جو وطن سے دور کلکتہ میں اپنے شوہر کے ساتھ سکونت پذیر تھی محترمہ رشیدہ جوکاکو کی خدمات حاصل کرنے کا انجمن نے فیصلہ کیا قوم کے پاس قابل بیٹیاں ہیں، مگر ان ہیروں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے رشیدہ صاحبہ نے بڑی مستعدی کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیں، انجمن گرلز ہائی اسکول ایک نئی روح پھونک دی، پھر یہ گرلز ہائی اسکول سے کالج بنا، ہماری قوم کی بیٹیوں پر رشیدہ صاحبہ کا بڑا احسان ہے، طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے علاوہ ان کے اخلاقی معیار کو بھی بلند کیا، قوم رشیدہ ماسٹرنی کے احسان کو کبھی بھول نہیں سکتی، قوم کی ہر بیٹی پر ان کا احسان ہے ۔
1968 میں ہی ویمن کالج کی بنیاد ڈالی گئی، پرائمری اسکول سے انجمن کی جو داغ بیل ڈالی گئی تھی آج وہ منیجمنٹ اور انجیئرنگ کالج تک پہنچا ہوا ہے لڑکیوں کی تعلیم کا سارا سہرا یس یم یحیی صاحب کو جاتا ہے تعلیم نسواں سے معاشرہ میں تعلیمی بیداری آتی ہے ماں کی گود سے ہی مدرسہ کی ابتدا ہوتی ہے بچوں کی تعلیم عورتوں کی تعلیم کے بغیر ادھوری ہے آج ہمارے معاشرہ میں مردوں کے مقابلہ میں عورتیں تعلیم کے میدان میں کافی ترقی کی ہیں ۔
انجمن نے اپنے سو سال کا سفر پورا کرلیا اس سو سال کا جائزہ ہم کو لینا ہے کہ اس marathon میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا کوئی ادارہ اپنے احتساب کے بغیر کبھی ترقی نہیں کرسکتا کیا ہمارے اندر کمزوریاں ہیں ، کیا خوبیاں ہیں اس کا بے لاگ تجزیہ کرنا ضروری ہے ورنہ ہم اگر خوش فہمیوں میں مبتلا ہوں گے تو ترقی نہیں کرسکتے گرچہ ہم نے اس عرصہ میں بے حساب ترقی کی ہے انجمن کو اور بھی بلندیوں کو چھونا ہے Higher Institute کی اور بھی ضرورت ہے لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ہم ذرا پیچھے کی جانب لوٹ جائیں، کیا ہم اپنے مشن میں کامیاب ہیں آج انجمن ترقی کے کلامنٹس میں پہنچ کر افراتفری کا شکار ہوا ہے انجیئرنگ کالج میں جو ایڈمیشن مختص ہیں، پہلے وہ قبل از وقت ہی اپنے ہدف سے زیادہ پار کر جاتے تھے طلباء سفارشات لے کر آتے تھے 400 تا 500 داخلے ہوتے تھے،ہمیں اس میں اور ترقی کرنی تھی، اآج اس کا گراف کافی حد تک گر چکا ہے ایک سو داخلے بمشکل ہو پاتے ہیں ہم ترقی سے تنزل کی طرف آگئے، ہم یہ کہہ کر اپنا دامن نہیں بچا سکتے کہ داخلہ کی کمی کی وجہ دوسرے مقامات پر انجیئرنگ کالجز کا قیام ہے، بلکہ اس کے لئے ہم کتنے ذمہ دار ہیں، ہماری کہاں کمزوریاں اور کوتاہیاں ہیں، اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، سو سال ختم ہو کر ابھی ہم دوسری صدی میں قدم رکھ رہے ہیں پہلی صدی کا احتساب ضروری ہے، اس پر سنجیدگی سے بحث ہونی چاہئے، اس کے علاوہ آج مارکٹ کو جن پروفیشنل کورسز کی ضرورت ہے، ان کورسز کو اختیار کریں ۔
میڈیکل کالج کے قیام کے لئے ہم نے کافی دیر کی، اس کا بہترین موقع تھا جب انجینئرنگ کالج ترقی پر تھا، آسانی سے ہم کو اجازت مل سکتی تھی، آج میڈیکل کالج کھولنے کے لئے پہلے کے مقابلہ میں کافی اخراجات ہیں، جو انویسٹمنٹ ہم کریں گے اس کا فائدہ ہم کو نہیں ملے گا ۔
انجمن کا پہلا دستور 1934 میں بنا تھا، اس دستور کی بنیاد سیکولرازم اور جمہوریت پر تھی، جب ہندوستان انگریزوں کا غلام تھا انجمن نے اس غلامی کے دور میں جمہوری طرز پر انجمن کی بنیاد ڈالی، یہ آئی یچ صدیق کی سوچ تھی اس جمہوری طرز کی وجہ سے انجمن کو نقصان بھی اٹھانا پڑا اس کی وجہ سے ان لوگوں کو داِخلہ کا دروازہ مل گیا، جو اس میدان کے نہیں تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیمی اداروں کو یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا، ظاہر بات ہے جمہوریت کو ختم نہیں کرسکتے لیکن اس کے اچھے اثرات سے فائدہ ضرور اٹھا سکتے ہیں، تعلیمی اداروں کو تعلیم یافتہ افراد ہی چلا سکتے ہیں three tire structure دے کر صحیح جمہوریت لاگو کرسکتے ہیں، منتخب افراد تو اس میں رہیں گے ہی، لیکن انتظامیہ سے کچھ افراد کو جو تعلیم یافتہ ہوں ، منتخب کرکے تعلیمی امور پر مکمل اختیار دیں، ایک بااختیار تعلیمی بورڈ بنائیں، ڈیموکریسی کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ ایک ان پڑھ شخص کو بھی جواز فراہم کرتی ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لے کر تعلیمی ادارہ کا ممبر بنے ۔
صد سالہ اس تقریب میں بہت سے مہمان مدعو تھے ریاستی وزراء کو بھی دعوت دی گئی تھی جس میں تنویر سیٹھ ، یوٹی قادر اور دیش پانڈے تشریف لائے تھے کرناٹک کابینہ کے سینیئر اور ڈسٹرکٹ انچارج منسٹر دیش پانڈے نے اشارہ میں بتایا، آج دنیا نے بہت ترقی کی ہے دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے اور ہندوستان کا شہری کہیں پر بھی جاکر روزگار تلاش کرسکتا ہے اور ترقی کرسکتا ہے ویسے یہ بات بادی النظر میں درست معلوم ہوتی ہے لیکن ہندوستان کے مسلمان جو اقلیت میں ہیں گلوبل ولیج میں اس کے لئے space بھی کم ہوتا جارہا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ 1945 میں ہندوستان کی آزادی سے قبل جناب آئی یس صدیق مرحوم قوم کے وہ اولین لیڈر ہیں، جو سینکڑوں میل دور بمبئ میں رہ کر ہماری نمائندگی کر رہے تھے، اس کے بعد جناب جوکاکو شمش الدین صاحب نے اس خلا کو پر کیا، اس کے دس سال کے بعد جناب یس یم یحیی صاحب سیاست کے افق پر نمودار ہوئے، آج بیس سال ہوئے یہ ِخلا پر نہیں ہو پارہا ہے حالات روز بروز تنزل کی جانب رواں دواں ہیں یہاں تک کہ مایوسی کی کیفیت دلوں میں پیدا ہوگئی ہے، کہ دوسرا آئی یس صدیق دوسرا شمش الدین اور دوسرا یحیی کیا پیدا ہوسکے گا یا نہیں، لیکن میں قوم کے نوجوانوں سے مِخاطب ہو کر کہتا ہوں تمھیں ناامید ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے ۔۔۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اگر ایک جانب مشکلات ہیں تو دوسری جانب توقعات بھی بہت ہیں سب سے بڑھ کر علم کی طاقت ہے سیاست میں وقت گزاری سے کچھ فائدہ نہیں آج کی سیاست گندی ہے مکر و فریب کی سیاست ہے لوٹ کھسوٹ کی سیاست ہے ترقی کے اور میدان بھی ہیں آئی پی یس، آئی اے یس وکالت صحافت یہ میدان وقت کی اہم ضرورت ہیں اس کو اختیار کرنے سے ہمارے وقار میں اضافہ ہوگا قوم کی ِخدمت کا موقع بھی ملے گا ۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر ۔۔۔۔۔۔۔ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
ہماری قوم خلیج کے مختلف ممالک میں برسر روزگار ہے اگر آج وہاں معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو آج ہندوستان کی سرزمین میں اس کے بہترین مواقع ہیں ہماری قوم تاجر پیشہ قوم ہے جہاں بھی ہم جاتے ہیں ترقی کے راستے کھلتے جاتے ہیں لیکن میں اپنے نوجوانوں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ہم نے دنیا کی کئی زبانیں سیکھیں ہیں عربی اور چینی زبان ہماری قوم فرفر بولتی ہے ہندوستان کی مختلف زبانیں مراٹھی تیلگو تامل بنگالی ملیالم بڑی روانی کے ساتھ ہم بولتے ہیں لیکن کیا بات ہے کنڑا زبان جو اپنے گھر کی زبان ہے، ہمارے لئے اجنبی زبان بن کر رہ گئی ہے ۔
انجمن کی اب دوسری صدی شروع ہوچکی ہے، میری گزارش ہے کہ انجمن کنڑا پر خصوصی توجہ دے، اس کے لئے کوچنگ کا انتظام کرے، ہماری سیاست، مذہبی رواداری اور ہندو مسلم میل ملاپ میں اگر کوئی چیز رکاوٹ ہے تو وہ زبان کا مسئلہ ہے، دنیا کی زبانیں ہم نے سیکھ لیں لیکن گھر کی زبان سے ہم ناواقف ہے۔
یہی میرا پیغام صد سالہ اجلاس کے موقع پر قوم کے نام اور نوجوانوں کے نام ہے ۔