حکومت کو برج بھوشن معاملے پر لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں!۔۔۔۔۔۔از: سہیل انجم

Source: S.O. News Service | Published on 5th June 2023, 1:40 PM | اسپیشل رپورٹس |

کہتے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ کیا امیر کیا غریب۔ کیا کمزور کیا طاقتور۔ کیا مرد کیا عورت۔ لیکن کیا واقعتاً ایسا ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ قانون امیر کے لیے الگ ہے اور غریب کے لیے الگ۔ حکمراں طبقے کے لیے الگ ہے اور محکوم کے لیے الگ۔ حالانکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں سب برابر ہوتے ہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ لیکن اسی جمہوریت میں قانون ایک جیسے جرم میں غریب کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتا ہے اور طاقتور کو چھونے کی بھی ہمت نہیں کر پاتا۔ اس سے قبل کئی ماہرین قانون بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان میں امیروں کے لیے الگ قانون ہے غریبوں کے لیے الگ۔

اگر ہماری بات پر آپ کو شبہ ہو تو اس وقت کے سب سے بڑے اور اہم معاملے کو دیکھ لیجیے آپ کو یقین آجائے گا۔ اس وقت کا سب سے برننگ ایشو اگر کوئی ہے تو وہ خاتون پہلوانوں کی جانب سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور کشتی فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف احتجاج ہے۔ برج بھوشن پر الزام ہے کہ انھوں نے ان خاتون پہلوانوں کا جنسی استحصال کیا ہے۔ جنسی ہراسانی کی ہے۔ ان کے ساتھ انتہائی بے ہودہ اور گھناونی حرکتیں کی ہیں۔ اس سلسلے میں دہلی کے کناٹ پلیس تھانے میں چھ خاتون پہلوانوں نے جو ایف آئی آر لکھوائی ہیں وہ بڑی سنسنی خیز ہیں۔ ان میں ان پہلوانوں نے کھول کھول کر ساری باتیں درج کرا دی ہیں جن کو پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ایک شخص ایسی حرکتیں بھی کر سکتا ہے۔ انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے ایف آئی آر کو لفظ بہ لفظ شائع کر دیا ہے۔ اس کو پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ ہم حقیقی واقعات پڑھ رہے ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی فلمی کہانی ہے۔ ایف آئی آر میں برج بھوشن پر لگائے جانے والے الزامات کی جو تفصیل پیش کی گئی تہذیب و شائستگی اس کو دوہرانے کی اجازت نہیں دے رہی۔

یہ ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ الزامات یا ان کا دسواں حصہ بھی کسی دوسرے ایسے شخص کے خلاف لگائے گئے ہوتے جو بی جے پی کا ایم پی نہیں ہوتا یا جو اتنا طاقتور نہیں ہوتا یا جو اپوزیشن کا کوئی لیڈر ہوتا یا پھر عام شہری ہوتا تو فوری طور پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہوتا۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ برج بھوشن کے خلاف الزامات لگانے والوں میں ایک نابالغ خاتون پہلوان بھی ہے۔ لہٰذا برج بھوشن کے خلاف پوکسو قانون کا نفاذ کیا گیا ہے۔ پوکسو قانون میں فوری گرفتاری ہوتی ہے اور جلد ضمانت نہیں ہوتی۔ یہ بہت سخت دفعہ ہے۔ اس میں ملزم کو ہی یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بے قصور ہے۔ لیکن برج بھوشن نے اس قانون کو بدلوانے کی کوشش کی۔ انھوں نے ایودھیا کے سادھو سنتوں کو اپنے حق میں کر لیا اور حیرت ہے کہ وہ جہاں برج بھوشن کی حمایت کر رہے ہیں وہیں وہ اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

سادھو سنتوں کے اس موقف پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ سادھوؤں کا منصب تو اخلاقیات کو فروغ دینا ہے لیکن وہ غیر اخلاقی حرکت کرنے والے کی حمایت کر رہے ہیں۔ دراصل برج بھوشن شرن سنگھ بھی بابری مسجد منہدم کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ان پر بھی انہدام کا الزام لگایا گیا تھا۔ لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ بی جے پی بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگاتی ہے لیکن حقیقتاً اس کو بیٹیوں یا خواتین سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ فی الحال تو یہی دیکھ لیجیے کہ برج بھوشن پر اتنے سنگین الزامات لگے ہیں لیکن نہ تو وزیر اعظم بول رہے ہیں اور نہ ہی وزیر داخلہ نہ ہی حکومت کا کوئی وزیر۔ بلکہ ایک وزیر میناکشی لیکھی کو جب صحافیوں نے پکڑ لیا تو وہ ایسے بھاگنے لگیں جیسے بقول شخصے اولمپک کی تیاری کر رہی ہوں۔

اس سے قبل جب جموں کے کٹھوعہ کی ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی اور پھر وحشیانہ انداز میں اس کا قتل کر دیا گیا تھا تو بی جے پی کے لیڈران ملزموں کی حمایت میں آگئے تھے۔ انھوں نے ملزموں کے حق میں ریلی نکالی تھی اور ریلی نکالنے والوں میں جموں کے وکلا بھی شامل تھے اور ان تمام لوگوں کا تعلق بی جے پی سے تھا۔ کیا ایک آٹھ سالہ معصوم بچی کی آبروریزی اور وحشیانہ قتل کی حمایت کرکے انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ان کو عورتوں اور لڑکیوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور یہ کہ اگر اس قسم کے گھناونے جرائم کرنے والے ان کے ہم مذہب ہیں تو وہ ان کی حمایت کریں گے۔ یعنی وہ ظالم کی حمایت کریں گے مظلوم کی نہیں۔

اسی طرح بی جے پی کے سابق ایم پی سوامی چنمیا نند پر ان کی ایک شاگردہ نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ انھیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ بعد میں اس لڑکی کو راضی کیا گیا کہ وہ اپنا کیس واپس لے لے۔ اس طرح انھیں رہا کرایا گیا۔ بی جے پی نے ان کی بھی حمایت کی تھی۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سینگر پر ایک خاتون کی آبروریزی اور اس کے اہل خانہ کے قتل کا الزام ہے۔ جب اس پر بہت زیادہ ہنگامہ ہوا تب کہیں جا کر انھیں گرفتار کیا گیا۔ ان کی حمایت بھی بی جے پی کرتی رہی۔ اسی طرح ہاتھرس میں جن لوگوں پر ایک دلت خاتون کی عصمت دری اور قتل کا الزام تھا ان لوگوں کی بھی حمایت کی گئی۔ گویا بی جے پی کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ مظلوم عورتوں کے بجائے ظالم مردوں کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ لہٰذا وہ برج بھوشن شرن سنگھ کا بھی ساتھ دے رہی ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ پولیس ان کے خلاف رپورٹ ہی درج نہیں کر رہی تھی۔ جب خاتون پہلوانوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سپریم کورٹ نے دہلی پولیس کو ہدایت دی تب کہیں جا کر ایف آئی آر درج کی گئی۔ لیکن جب پہلوانوں نے نئی پارلیمنٹ بلڈنگ تک مارچ کرنے اور وہاں مہیلا پنچایت کرنے کا اعلان کیا تو اسی دہلی پولیس نے جس نے برج بھوشن کو چھوٹ دے رکھی ہے، ان کو سڑکوں پر گھسیٹا اور انھیں بسوں میں بھر کر  تھانوں میں لے جا کر بند کر دیا گیا۔ جن خاتون پہلوانوں نے پوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ان کو اس طرح بے عزت کیا جائے گا ایسا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ پولیس کی اس کارروائی کی پوری دنیا میں مذمت ہو رہی ہے اور برج بھوشن کی گرفتاری کا مطالبہ ہو رہا ہے لیکن اب بھی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔

یہ واقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ حکومت برج بھون کی پشت پر کھڑی ہے۔ جبکہ بغیر کسی جرم اور قصور کے ان لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے جو حکومت کے جانبدارانہ اور غیر منصفانہ قانون سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان لوگوں پر یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے تاکہ ان کی ضمانت نہ ہو سکے۔ لیکن برج بھوشن پر سنگین الزامات کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ کیا یہ حقائق اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ حکمراں طبقے کے لیے الگ قانون ہے اور عوام کے لیے الگ۔ مبصرین کے مطابق حکومت برج بھوشن کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں کر رہی ہے کہ اس صورت میں اسے سیاسی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ لیکن انہی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برج بھوشن کو گرفتار نہیں کیا گیا تو بی جے پی کو کہیں زیادہ نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔  

ایک نظر اس پر بھی

پرجول ’جنسی اسکینڈل‘سے اُٹھتے سوال ...آز: سہیل انجم

اس وقت ملکی سیاست میں تہلکہ مچا ہوا ہے۔ جنتا دل (ایس) اور بی جے پی شدید تنقیدوں کی زد پر ہیں۔ اس کی وجہ ایک ایسا واقعہ ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا جنسی اسکینڈل کہا جا رہا ہے۔ قارئین ذرا سوچئے  کہ اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ ایک شخص نے، جو کہ رکن پارلیمنٹ ہے جو ایک سابق وزیر اعظم کا پوتا ...

بھٹکل تنظیم کے جنرل سکریٹری کا قوم کے نام اہم پیغام؛ اگر اب بھی ہم نہ جاگے تو۔۔۔۔۔۔۔؟ (تحریر: عبدالرقیب ایم جے ندوی)

پورے ہندوستان میں اس وقت پارلیمانی الیکشن کا موسم ہے. ہمارا ملک اس وقت بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے. ملک کے موجودہ تشویشناک حالات کی روشنی میں ووٹ ڈالنا یہ ہمارا دستوری حق ہی نہیں بلکہ قومی, ملی, دینی,مذہبی اور انسانی فریضہ بھی ہے۔ گزشتہ 10 سالوں سے مرکز میں فاشسٹ اور فسطائی طاقت ...

تعلیمی وڈیو بنانے والے معروف یوٹیوبر دُھرو راٹھی کون ہیں ؟ ہندوستان کو آمریت کی طر ف بڑھنے سے روکنے کے لئے کیا ہے اُن کا پلان ؟

تعلیمی وڈیوبنانے والے دُھرو راٹھی جو اِ س وقت سُرخیوں میں  ہیں، موجودہ مودی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے  کھل کر منظر عام پر آگئے ہیں، راٹھی اپنی یو ٹیوب وڈیو کے ذریعے عوام کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت ان کے مفاد میں  نہیں ہے، عوام کو چاہئے کہ  اپنے ...

بھٹکل: بچے اورنوجوان دور درازاور غیر آباد علاقوں میں تیراکی کے لئے جانے پر مجبور کیوں ہیں ؟ مسجدوں کے ساتھ ہی کیوں نہ بنائے جائیں تالاب ؟

سیر و سیاحت سے دل صحت مند رہتا ہے اور تفریح انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بناتا ہے۔اسلام  سستی اور کاہلی کو پسند نہیں کرتا اسی طرح صحت مند زندگی گزارنے کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جسمانی سرگرمیوں میں جہاں مختلف قسم کی ورزش ...

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...