این آر سی سے ہندو،مسلمان کے علاوہ قبائل بھی متاثر ہوں گے: ادھوٹھاکرے
ممبئی،19/فروری (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا) ملک کی کئی ریاستوں میں شہریت ترمیم قانون کو لے کر احتجاجات جاری ہیں۔دہلی، راجستھان، مہاراشٹر سمیت کئی ریاستوں میں مسلم طبقے کی خواتین اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھرنا دے رہی ہیں۔دہلی کے شاہین باغ میں چل رہے دھرنا مظاہرے کو دو ماہ سے زیادہ کا وقت ہو گیا ہے۔غیر بی جے پی حکومت ریاست کیرلا، پنجاب، راجستھان اور مغربی بنگال سی اے اے کے خلاف اسمبلی میں قرارداد منظور کر چکے ہیں۔تلنگانہ حکومت سی اے اے کے خلاف قرارداد منظور کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔مہاراشٹر میں بھی اس کو لے کر بحث زوروں پر ہے کیونکہ وہاں شیوسینا، کانگریس اور این سی پی اتحاد کی حکومت ہے لیکن تینوں جماعتوں کے درمیان عام رائے نہیں بن پا رہی ہے۔مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے اب اس معاملے پر اپنی خاموشی توڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ سی اے اے قومی شہری رجسٹر (این آر سی) اور قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) الگ الگ ہیں۔ سی اے اے سے کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کہاکہ شہریت ترمیم قانون اور قومی شہری رجسٹر، دونوں مختلف ہیں اور قومی آبادی رجسٹر الگ ہے۔اگر سی اے اے نافذہوتا ہے تو کسی کو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ این آر سی یہاں نہیں ہے اور یہ ریاست میں نافذنہیں ہو گا۔وزیر اعلیٰ نے مزید کہاکہ اگراین آر سی نافذہوتا ہے تو یہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ قبائلیوں کو بھی متاثر کرے گا۔مرکزی حکومت نے ابھی تک این آر سی پر بحث نہیں کی ہے۔ این پی آر مردم شماری ہے جو ہر 10 سال میں ہوتی ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی متاثر ہوگا۔ادھو ٹھاکرے کے بیان پر ریاستی حکومت میں اتحادی پارٹی این سی پی کے سربراہ شرد پوار نے کہاکہ سی ایم ادھو ٹھاکرے کی اپنی رائے ہے لیکن این سی پی کے تناظر میں میں یہ کہوں گا کہ ہم نے سی اے اے کے خلاف ووٹ کیا تھا۔