مودی لہر میں اپوزیشن کی ساری تدبیریں بہہ گئیں؛ ملک میں پھر ایک بار مودی سرکار؛ بھاجپا کی تاریخ ساز کامیابی
نئی دہلی 24/مئی (ایس او نیوز/ایجنسیاں) پلوامہ حملے اور بالاکوٹ ائیر اسٹرائک کے بعد ملک میں پھیلی نیشلزم کی لہر کے ساتھ ساتھ نریندر مودی کی مقبولیت نے بھاجپا کو پھر ایک بار لوک سبھا انتخابات میں تاریخ ساز جیت درج کرائی ہے بلکہ مغربی بنگال اور اوڈیشہ میں بھی اس نے اپنی حالت مضبوط کرکے مخالفین کی بولتی بند کردی ہے۔
بی جے پی کی زبردست جیت کے آگے ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس کہیں ٹک نہیں سکی ہے اور وہ52 سیٹوں کے آس پاس سمٹ کررہ گئی ہے جس کے سبب گزشتہ بار کی طرح وہ اس بار بھی لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کی حالت میں نہیں لگ رہی ہے۔ کانگریس کی کراری شکست سے صاف ہے کہ عوام نے اس کی‘نیائے ’یوجنا کو پوری طرح خارج کردیا ہے۔کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے پارٹی کی شکست قبول کرتے ہوئے وزیراعظم مسٹر مودی کو شاندار جیت کے لئے مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے امیٹھی سیٹ پر اپنی حریف مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کو بھی مبارکباد دی ہے۔مسٹر مودی کی مقبولیت اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ کی تنظیمی مہارت کی مدد سے بی جے پی پہلی بار لوک سبھا میں 300کا اعداد شمار چھوڑ رہی ہے اور مسلسل دوسری مرتبہ مرکز میں اس کی اکثریت والی حکومت بنے گی۔ 1971کے بعد یہ دوسرا موقع ہوگا جب کسی وزیراعظم کی قیادت میں ان کی پارٹی مسلسل دوسری مرتبہ اکثریتی حکومت بنانے والی ہے۔
بی جے پی نے 2014کی طرح اس بار بھی مغرب اور شمالی ہندستان میں یکطرفہ جیت درج کی۔ اس نے مشرقی ریاستوں مغربی بنگال اور اوڈیشہ میں بھی اپنی کارکردگی بہتر کی ہے۔ گزشتہ دسمبر میں جن تین ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اسے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا وہاں بھی ان انتخابا ت میں ا س نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے اور کانگریس کو کراری شکست دی ہے۔ اس الیکشن میں شاندار کارکردگی کے بعد اب جنوبی ہندوستان کی صر ف چار ریاستوں آندھراپردیش، تلنگانہ، تملناڈو اور کیرلا میں ہی اس کی حالت کمزور رہ گئی ہے۔انتخابات کے نتائج سست رفتار سے آرہے ہیں۔رات11بجے تک صرف 300سیٹوں کے نتائج ہی آئے ہیں، این ڈی اے200، یو پی اے50، دیگرکو 35سیٹیں ملی ہیں۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی کو دو، لوک جن شکتی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو ایک ایک سیٹ ملی ہے۔ نتائج اور ووٹوں کی گنتی کے رجحانات میں ملی سبقت کی بنیاد پر بی جے پی 303سیٹیں جیتنے والی ہے۔ یہ اس کی اب تک کی سب سے اچھی کارکردگی ہے۔ بی جے پی کی اتحادی جماعت شیو سینا کو 18، جنتادل یونائیٹڈ کو 16اور لوک جن شکتی پارٹی کو چھ سیٹیں مل رہی ہیں۔کانگریس کے صدر راہل گاندھی کی زبردست انتخابی تشہیر اور پرینکا گاندھی کو جنرل سکریٹری کے طورپر اتارنے کے باوجود پارٹی کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ وہ سیٹوں کے معاملہ میں پچھلی بار کے آس پاس ہی ہے۔ کیرلا اور پنجاب نے کچھ حد تک پارٹی کی عزت بچا لی ہے نہیں تو اس کی کارکردگی پچھلی بار سے بھی نیچے جاسکتی تھی۔ اب تک اعلان شدہ نتائج میں دو اس کے حق میں گئے ہیں جبکہ 48 سیٹوں پر اس کے امیدوار آگے ہیں۔ مسٹر گاندھی امیٹھی سے ہارگئے ہیں لیکن کیرلا کی وائناڈ سیٹ پر انہوں نے اچھی سبقت لے رکھی ہے۔مغربی بنگال میں مودی کی مقبولیت کے آگے ترنمول کانگریس کو اس بار زبردست نقصان ہوا ہے اور اسے 23سیٹیں ہی مل رہی ہیں۔ آندھراپردیش میں جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس نے تیلگو دیشم پارٹی کو کراری شکست دیتے ہوئے ریاست میں اقتدار سے باہر کردیا ہے اور لوک سبھا انتخابات میں بھی اس کا صفایا کردیا ہے۔ وہ لوک سبھا کی 25میں سے 22سیٹوں پر آگے ہے۔کانگریس اور دراوڑ منیتر کزگم (ڈی ایم کے) کا اتحاد تملناڈو میں شاندار کارکردگی کررہا ہے۔ ایم کروناندھی کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے اسٹالن کی قیادت میں ڈی ایم کے نے زبردست واپسی کی ہے۔ پارٹی کے امیدوار 23سیٹوں پر سبقت حاصل کئے ہوئے ہیں جبکہ کانگریس کو 8سیٹیں مل رہی ہیں۔ دو دو سیٹوں پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور مارکسی کمیونسٹ پارٹی آگے ہے۔ ریاست میں برسراقتدار اے آئی اے ڈی ایم کے کو بڑا نقصان جھیلنا پڑا ہے اور اسے صرف ایک سیٹ پر اکتفا کرنا پڑسکتا ہے۔اوڈیشہ میں بھی بی جے پی ریکارڈ توڑ کارکردگی کرتے ہوئے 9سیٹوں پر سبقت حاصل کئے ہوئے ہے جبکہ گزشتہ مرتبہ اسے محض ایک سیٹ ملی تھی۔ لوک سبھا انتخابات کے مقابلہ بیجو جنتادل کو نقصان ہوا ہے اور اسے 13سیٹیں مل رہی ہیں لیکن اسمبلی انتخابات میں وہ ایک بار پھر ریاست میں حکومت بنانے کی حالت میں آگئی ہے۔ بی جے ڈی کے سربراہ نوین پٹنائک پانچویں بار اوڈیشہ کے وزیراعلیٰ بننے والے ہیں۔ کانگریس کو اس بار بھی ریاست میں لوک سبھا کی ایک بھی سیٹ نہیں مل رہی ہے۔بی جے پی اترپردیش میں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے اتحاد پر بھی بھاری پڑ ی ہے۔ اسے ریاست کی 80 میں سے 61سیٹیں مل رہی ہیں حالانکہ گزشتہ لوک سبھا سیٹوں کے مقابلہ میں اسے 10سیٹوں کا نقصان ہورہا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی دس اور سماج وادی پارٹی چھ سیٹوں پر سبقت بنائے ہوئے ہے۔ کانگریس ایک اور اپنا دل (سونے لال) دو سیٹوں پر آگے ہے۔گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، ہریانہ، دہلی، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں بی جے پی نے اپنی پچھلی کارکردگی دہراتے ہوئے سیدھی لڑائی میں کانگریس کا صفایا کردیا ہے۔وزیراعظم نریندر مودی، پارٹی کے صدر امیت شاہ، وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ، یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی سمیت کئی بڑے لیڈر بڑی سبقت کے ساتھ الیکشن جیت رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پارلیمانی حلقے وارانسی میں اپنے ہی سابقہ ریکارڈ کو توڑتے ہوئے 479505 ووٹوں سے بڑی کامیابی درج کر کے اپنے قریبی حریف سماج وادی پارٹی کے امیدوار شالنی یادو کو شکست دی۔ڈاسٹرکٹ الیکشن افسر سریندرسنگھ نے جمعرات کو بتایا کہ مسٹر مودی کو 674664 ووٹ ملے جبکہ محترمہ یادو کو 195159 ووٹوں سے ہی اطمینان کرنا پڑا۔ مسٹر مودی سے دوسری بار انتخابی مقابلہ کرنے والے چھ بار کے رکن اسمبلی رہے کانگریس امیدوار اجئے رائے نے بھی اپنے سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 152548 ووٹ حاصل کئے۔ سال 2014 میں بھی انہوں نے 75614 ووٹوں کے ساتھ تیسرا مقام حاصل کیا۔مسٹر مودی نے لوک سبھا انتخابات میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کو 371784 ووٹوں سے شکست دی تھی۔انہوں نے 581022 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ مسٹر کجریوال کو 209238 ووٹ ملے تھے۔ وارانسی کے پنڈرا اسمبلی حلقے سے رکن اسمبلی مسٹر رائے کو 75614 اور بی ایس پی کے وجے پرکاش جیسوال کو 60579 ووٹ ملے تھے اور وہ تیسرے مقام پر تھے۔وارانسی میں اس بار مسٹر مودی سمیت 26 امیدوار انتخابی میدان میں تھے۔ ان میں دو خاتون امیدوار شامل ہیں۔ 18 مختلف سیاسی پارٹیوں کے نشان پر اور آٹھ آزاد امیدوار انتخابی میدان میں تھے۔