کنکن کنڈی عدم مساوات کی علامت ہے:اُڈپی میں پرنسپال راؤ کا خطاب

Source: S.O. News Service | By Abu Aisha | Published on 24th April 2017, 9:16 PM | ساحلی خبریں |

اُڈپی:24/اپریل(ایس اؤنیوز) کنک داس کی بھگتی پسند آئی تو کرشنا نےرخ موڑ کر اپنا درشن دینے والی ’’کنکن کِنڈی ‘‘(کنک داس کی کھڑکی) کو عدم مساوات، ظلم و استحصال کی تمثیل کہہ سکتے ہیں، آج بھی کئی اچھوتوں اور نچلی ذات والوں کو مندروں میں داخلہ نہیں دینے پر اُڈپی کے ڈاکٹر ٹی ایم پائی ڈگری کالج کے پرنسپال ڈاکٹر مہابلیشور راؤ نے افسوس ظاہر کیا ۔

اُڈپی کنک داس مطالعہ مرکز، منی یونیورسٹی اور پرکل سریگم بھارتی سنگیت کالج کے اشتراک سے اُڈپی کے ایم جی ایم کالج کے صحن میں منعقدہ 7روزہ موسیقی اور کیرتن پروگرام کا افتتاح کرنے کے بعد وہ خطاب کررہے تھے۔ پرنسپال راؤ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ کنک داس کی بھگتی پر دل ہار کر رخ بدل کر درشن دینے اور کنکن کنڈی کی تخلیق کو لے کر کئی افسانے ہیں، اسی طرح مادھواچاریوں نے کرشنا کی مورتی کو مشرق کے بدلے مغربی رخ پر نصب کئے جانے کے متعلق بحث ہوتی رہی ہے، لیکن کنکن کنڈی کیسے تخلیق ہوئی اس کے متعلق کرشنا مٹھ کی تاریخ، قانونی دستاویزات یا کنک داس کی تصنیفات میں کوئی تحریر نہیں ہے تو زیادہ سے زیادہ عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے ایک جھوٹی داستان گھڑی گئی ہوگی۔ ہمارے 250داسوں میں سے کنک داس اکیلے شودر داس ہیں، انہوں نے 315بھجن تخلیق کئے ہیں، وہ صرف ایک داس نہیں تھے بلکہ کنڑازبان کے عظیم شاعر بھی ہیں، ان کی شاعری کو صحیح تناظر میں مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں سمجھنا ہوگا۔ موجودہ زمانے میں نئے نقطہ نظر سے ان کے متعلق تحقیق کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سنئیر فن کار، تنقیدنگار ایشوریا نے پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ ہماری تہذیب اور ثقافت کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے ، موسیقی اور ادب دونوں الگ الگ ہیں، ایک دوسرے کا تعلق نہیں ہونے کی بات کہی۔ ڈائس پر ورندا آچاریہ بنگلورو ، اروند ہیبار، کنک داس مطالعہ مرکز کے معاون ناظم ڈاکٹر اشوک آلوا موجود تھے۔ مرکزکے ناظم ڈاکٹر وردیش ہیرگنگے نے افتتاحی کلمات پیش کئے ، ڈاکٹر اُدئیے شنکر نے استقبال کیا ، ڈائرکٹر اوماشنکر نے شکریہ اداکیا۔ لکچرر اپوروا نے نظامت کی ۔

ایک نظر اس پر بھی