9؍ سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید دو ملزمین کی ضمانت پر رہائی کی درخواست داخل
استغاثہ نے دوہفتوں کی مہلت طلب کی،جمیعۃ علمائے ہندکے وکلاء بحث کے لیے تیار
ممبئی9مارچ(ایس او نیوز؍پریس ریلیز)انڈین مجاہدین(گجرات )مقدمہ میں ماخوذگذشتہ ۹؍ سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقیددو مسلم نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پرسپریم کورٹ نے استغاثہ کی درخواست پر دو ہفتوں کے بعد سماعت کیئے جانے کے احکامات جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی)کے دفتر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ملزمین عتیق الرحمن عبدالحکیم خلجی اورعمران احمد سراج احمد (کوٹا راجستھان) کی ضمانت پر رہائی کے لیئے سپریم کورٹ میں گذشتہ ماہ عرضداشت داخل کی گئی تھی جس پر آج سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن کے سامنے سماوت عمل میں آئی جس کے دوران استغاثہ نے عدالت سے اپنا جواب داخل کرنے کے لیئے دو ہفتوں کی مہلت طلب کی حالانکہ جمعیۃ علماء کے وکلاء سابق ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایڈوکیٹ امریندر شرن اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ گورو اگروال ضمانت عرضداشت پر بحث کرنے کے لیئے تیارتھے ۔ضمانت عرضداشت کو ایڈوکیٹ آن ریکارڈ گورو اگروال نے تیار کیا ہے اور اس میں درج کیا ہیکہ ملزمین ۹؍ نومومبر ۲۰۰۸ء سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہیں نیز ملزمین کے خلاف صرف دیگر ملزم مہندی حسن کے اقبالیہ بیان(CrPC 164 Statement) جس میں اس نے کہا ہیکہ وہ ہلول کے مقام پر منعقدہ ٹریننگ کیمپ میں موجود تھے کے علاوہ کوئی بھی پختہ تحریر ی و زبانی ثبوت استغاثہ عدالت میں پیش نہیں کرسکا۔ضمانت عرضداشت میں بتایا گیا کہ ۱۹؍ جولائی ۲۰۱۷ء کو گجرات ہائی کورٹ نے ملزمین کی ضمانت یہ کہتے ہو ئے مسترد کردی تھی کہ معاملے کی سماعت جاری ہے اور ایسے موقع پر ملزمین کو ضمانت پر نہیں رہا کیا جاسکتا ، جبکہ اس معاملے میں استغاثہ نے ملزمین کے خلاف گواہی کے لیئے 2800 گواہوں کو نامز د کیا جس میں سے ابتک صرف 1000 گواہوں کی گواہی عمل میں آئی ہے اور معاملے کی سماعت اسی رفتار سے چلتی رہی تو اگلی ایک دہائی میں بھی یہ مقدمہ ختم نہیں ہوگا لہذا ملزمین کو ضمانت پر رہا کیا جائے ۔ آج کی عدالتی کارروائی کے اختتام کے بعد ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹرقانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ یہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مقدمہ ہے جس میں ۳۵؍ ایف آئی آر (مقدمات) کو یکجا کرکے ایک ہی عدالت میں اس کی سماعت کی جارہی ہے جس میں ابتک ۲۸؍ سو سرکاری گواہان میں سے ۱۰۰۰؍ سرکاری گواہان سے مقدمہ کا سامنا کررہے ملزمین کوقانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء کے وکلاء نے جرح کرلی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ مہاراشٹر کی پڑوسی ریاست گجرات کے تجارتی شہروں احمد آباد اور سورت میں سال ۲۰۰۹ ء میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمات کی سماعت احمد آبا د کی خصوصی عدالت میں جاری ہے نیز ججوں کے تبادلے کی وجہ سے معاملے کی سماعت اس تیزی سے نہیں ہوپارہی تھی لیکن نئے جج اے آر پٹیل کے چارج سنبھالنے کے بعد سے سرکاری گواہان کو عدالت میں گواہی کے لیئے طلب کیا جارہا ہے اور ہفتہ میں تین دن مقدمہ کی سماعت کا شیڈول بنایا گیا ہے ، حالانکہ گجرات حکومت کی جانب سے سی آر پی سی کی دفعہ 268 کے نفاذ کے بعد سے ملزمین کی عدالت میں حاضری پر روک لگی ہوئی ہے لیکن بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ انہیں عدالت کی کارروائی میں شریک کیا جارہا ہے ۔جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے اس ضمن میں کہا کہ اس معاملے میں ملک کے مختلف شہروں سے گرفتار۸۵؍ اعلی تعلیم یافتہ ملزمین میں سے ۶۵؍ مسلم نوجوانوں کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء کررہی ہے نیزفاعی وکلاء ایڈوکیٹ ایل آر پٹھان، ایڈوکیٹ ایم ایم شیخ، ایڈوکیٹ این اے علوی، ایڈوکیٹ جے ایم پٹھان ، ایڈوکیٹ الطاف شیخ اور ایڈوکیٹ خالد شیخ پر مشتمل ایک ٹیم عدالت ملزمین کے مقدمات کی پیروی کے لیئے مقرر کی گئی ہے جو ملزمین پر قائم جھوٹے مقدمات کا دفاع کرنے میں مصروف ہے وہیں حسب ضرورت ملزمین کی سیشن عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک ضمانت عرضداشتیں بھی داخل کی جارہی ہیں ۔ گلزار اعظمی نے مزید بتلایا کہ کہ گجرات مقدمہ میں ماخوذین میں سے ۱۳ ، ملزمین کو ممبئی انڈین مجاہدین مقدمہ اور ۷ ملزموں کو دہلی انڈین مجاہدین مقدمہ میں ماخوذ بتا یا گیا ہے نیز اسی طرح انہیں ملزمین کو حیدار آباد اور بنگلور کے بھی بم دھماکوں کے سلسلے میں ماخوز بتایا گیا ہے نیز جمعیۃ علماء ملک کے دیگر صوبوں میں بھی ملزمین کے مقدمات کی پیروی کررہی ہے لیکن ملزمین کی عدم دستیابی کی وجہ سے احمد آباد کو چھوڑ کر دیگر شہروں کے مقدمات سست روی کا شکا رہیں ۔