سمترامہاجن ایوان چلانے کے لیے راہل گاندھی سے تعاون مانگیں گی

Source: S.O. News Service | By Shahid Mukhtesar | Published on 15th July 2018, 11:35 PM | ملکی خبریں |

نئی دہلی،15جولائی (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا) لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کو پرسکون انداز میں کارروائی یقینی بنانے کے واسطے کل جماعتی میٹنگ سے قبل کانگریس صدر راہل گاندھی سمیت مختلف پارٹیوں کے رہنماؤں کے ساتھ الگ الگ میٹنگیں کریں گی اور انہیں بتائیں گی کہ جمہوریت کی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے ایوان کا چلنا کتنا ضروری ہے۔مسز مہاجن نے یہاں’یو این آئی‘ سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ وہ 17 تاریخ کو کل جماعتی میٹنگ سے قبل دوسری پارٹیوں کے ایک یا دو رہنماؤں کو بلا کر ذاتی طور پر بات کرنے کی کوشش کریں گی اور انہیں اس بات کے لئے راضی کرنے کی کوشش کریں گی کہ ممبران پارلیمنٹ کو اپنے علاقے کے موضوعات پر بولنے کا موقع ضرور ملنا چاہئے۔

اس سے ان کو اپنے ووٹروں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس کی جانب سے اس کے لیڈر ملک ارجن کھڑگے کے علاوہ مسٹر گاندھی سے بھی ملیں گی کیونکہ وہ کانگریس کے صدر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات صرف بڑے لیڈروں کے بل بوتے ہی نہیں جیتے جاتے ہیں۔ قومی سطح پر بڑے لیڈر کے کرشمے کے ساتھ حلقہ میں امیدوار کی ساکھ اور شبیہ کا بڑا کردار ہوتا ہے

اسی لیے اپنے حق میں بڑی لہر کے باوجود لوگ ہار جاتے ہیں اور اس کے برعکس لہر میں بھی لوگ جیتنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ لہذا ایوان میں تمام اراکین کو ان کی قانون سازی کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا موقع ملنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ مون سون اور موسم سرما سیشن میں ہی کام کرنے کا موقع ہے۔ اس کے بعد انتخابات کی تیاری شروع ہوجائے گی۔اگر ممبران پارلیمنٹ، خاص طور پر پہلی بار منتخب کئے گئے ممبران پارلیمنٹ کو ان کے حلقوں کے مسائل کو اٹھانے کا موقع نہیں ملتا ہے تو علاقے میں ان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مسز مہاجن نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ کے رویے کو لے کر ملک و بیرون ملک، ہر جگہ سوال اٹھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حالیہ غیرملکی دورے میں انہیں اس قسم کے سوال سننے کو ملے ہیں۔غیر مقیم ہندوستانی برادری نے بھی پارلیمنٹ کے اندر ماحول کو لے کر ناخوشی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک ہندوستان کی جمہوریت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔لہذا نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا بھر میں جمہوری نظام کے اعتماد کو مضبوط کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

مسز مہاجن نے کہا کہ وہ اپوزیشن پارٹیوں کے كام روکو وغیرہ قراردادوں پر غور کرنے کے لئے ہمیشہ تیار ہیں لیکن قرارداد کی زبان کابھی خیال رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام پارٹیوں کو ان کے موضوع اٹھانے کا موقع دینا چاہتی ہیں لیکن اس کے لئے التزامات کے مطابق راستے کا انتخاب کریں گے. انہوں نے کہا کہ گزشتہ سیشن میں اپوزیشن نے بینکوں کے گھوٹالوں کو لے کر بحث کا نوٹس دیا تھا اور بنچ بھی کچھ کہنا چاہتی تھی اور دونوں ہی بحث کے لئے تیار تھے مگر نوٹس کی زبان کو لے کر مسئلہ تھا۔کسی بھی قرارداد کی زبان کو اتفاق رائے سے طے کیا جانا چاہئے۔

ایوان میں پلے کارڈ دکھانے اور چیئر کے سامنے آ جانے والے ارکان کو کنٹرول کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس بارے میں پہلے ہی ایوان کے قوانین بنے ہوئے ہیں اور وہ قانون ارکان نے ہی بنائے ہیں کہ وہ پلے کارڈ نہیں دکھائیں گے اور ایوان کے بیچوں بیچ چیئر کے سامنے نہیں آئیں گے لیکن عملی طور پر وہ ان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں جس پر انہیں ہی سوچنا ہوگا۔

ایوان میں آنے سے پہلے ممبران پارلیمنٹ کی جانچ کئے جانے کی تجویز کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ ہر ایک رکن پارلیمنٹ 10 سے 15 لاکھ لوگوں کاعوامی نمائندہ ہوتا ہے، اس کی جانچ ہو، ایسا مناسب نہیں ہوگا لیکن ممبران پارلیمنٹ کو سوچنا چاہئے کہ ہندوستان دنیا کی نا صرف سب سے بڑی بلکہ سب سے زیادہ متحرک جمہوریت ہے اور جمہوریت کے سب سے بڑے مندر میں ہنگامے سے دنیا بھر میں مثبت پیغام نہیں جاتا ہے۔

مسز مہاجن نے کہا کہ انہوں نے تمام ممبران پارلیمنٹ کو بھی اس بارے میں ایک خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ 16 ویں لوک سبھا کا آخری سال شروع ہو چکا ہے۔وقت کم ہے اور کام زیادہ۔ ایسے میں وہ زیادہ سے زیادہ کام کرانے میں اہم کردار اد کریں اور سیاسی اور انتخابی جنگ کو ایوان کے باہر اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں لڑیں۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا میں پارلیمنٹ، پارلیمانی روایات اور جمہوریت کے تئیں ضروری جوش و خروش کم ہوتاجارہاہے۔ یہ رجحان ہماری جمہوریت کے لئے ایک چیلنج بن سکتا ہے اس لئے اب موقع آگیا ہے کہ ہم خود تجزیہ کریں کہ ہمارے پارلیمنٹ اور جمہوریت کے لئے کون سی سمت یا شبیہ مناسب ہے۔لوک سبھا اسپیکر نے خط میں لکھا ہے کہ عوام نے ہمیں اس عظیم پارلیمنٹ کا رکن بننے کا ‘ آشیرواد’ دیا ہےتو ہم سب کا اجتماعی فرض ہے کہ جمہوریت کے اس مندر کی ساکھ اور شفافیت کو ہمیشہ رقرار رکھیں۔

ایک نظر اس پر بھی

لوک سبھا انتخابات 2024: 88 سیٹوں پر ووٹنگ ختم؛ شام پانچ بجے تک تریپورہ میں سب سے زیادہ اور اُترپردیش میں سب سے کم پولنگ

لوک سبھا الیکشن 2024 کے کے دوسرے مرحلہ میں آج ملک کی 13 ریاستوں  سمیت  مرکز کے زیر انتظام خطوں کی جملہ  88 سیٹوں پر انتخابات  کا عمل انجام پا گیا۔جس میں شام پانچ  بجے تک ملی اطلاع کے مطابق  تریپورہ میں سب سے زیادہ   79.50 فیصد پولنگ ریکارڈکی گئی جبکہ  سب سے کم پولنگ اُترپردیش ...

وی وی پیٹ معاملہ: سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ دوبارہ محفوظ رکھا

’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے بدھ کو مشاہدہ کیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور ووٹر کی تصدیق شدہ پیپر آڈٹ ٹریل میں مائیکرو کنٹرولرز کسی پارٹی یا امیدوار کے نام کو نہیں پہچانتے ہیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتا کی بنچ الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ڈالے ...

مودی حکومت میں بڑھی مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب خواتین پر گھریلو تشدد میں ہوا اضافہ: الکا لامبا

 ’’چنڈی گڑھ لوک سبھا سیٹ پر اس مرتبہ الیکشن تاریخی ثابت ہوگا۔ یہاں کے انتخاب کی لہر ہریانہ، پنجاب میں کانگریس کی فتح طے کرے گی۔‘‘ یہ بیان قومی خاتون کانگریس کی صدر الکا لامبا نے چنڈی گڑھ میں دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی مہنگائی و بے روزگاری کے معاملے میں ...

ہتک عزتی کے معاملہ میں راہل گاندھی کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے راحت، کارروائی پر روک

 کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو چائیباسا کے ایم پی-ایم ایل اے کورٹ میں ان کے خلاف چل رہے ہتک عزتی کے معاملہ میں بڑی راحت ملی ہے۔ جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ایم پی-ایم ایل اے کورٹ میں جاری کارروائی پر روک لگا دی ہے۔

مودی کی گارنٹی بے اثر رہی، اس لئے جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں: پی چدمبرم

 کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے کہا کہ 'دولت کی دوبارہ تقسیم' اور 'وراثتی ٹیکس' پر 'من گھڑت' تنازعہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس لوک سبھا الیکشن میں خوفزدہ ہے اور جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے کیونکہ 'مودی کی گارنٹی' کوئی اثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

فوج کی بھرتی کا کیا ہوا، مورینہ بجلی چوری کا گڑھ کیوں بن گیا؟ کانگریس کے مودی سے سوالات

کانگریس نے وزیر اعظم مودی کے مدھیہ پردیش میں انتخابی جلسہ سے قبل ریاست کو درپیش کچھ مسائل پر سوالات پوچھے اور دعویٰ کیا کہ ریاست کے دیہی علاقوں، خاص طور پر قبائلی بستیوں میں ’سوچھ بھارت مشن‘ ناکام ثابت ہوا ہے۔