آرایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کو صدر جمہوریہ بنانے شیوسینا کا مطالبہ ؛ ملک میں ہندوتوا کی نئی لہر!!
ممبئی 28؍ مارچ(ایس او نیوز ؍ ایجنسی ) کیا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت ملک کے صدر بنیں گے ؟ سننے میں یہ آوٹ پٹانگ تو لگ رہا ہے. لیکن، کچھ اسی طرح کی مانگ بی جے پی کی اتحادی شیوسینا کی جانب سے ہو رہی ہے۔ شوسنا لیڈر سنجے راوت نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے نام کو ملک کے صدر کے طور پر اچھال کر سب کو چونکا دیا ہے. خود سنگھ کو اپنا پریرتا ماخذ ماننے والی بی جے پی بھی اس بارے میں نہ ہی کسی طرح کی کوئی بات کرتی ہے اور نہ ہی کبھی اس بارے میں سوچتی بھی ہے.
بی جے پی کے لیڈر تو شاید اس بارے میں سوچنے سے پہلے بھی سو بار سوچے. اگر سوچ بھی لیں تو بولنے کی حماقت تک نہ کریں. کیونکہ معاملہ سنگھ پریوار کے سربراہ کا ہے جس پریوار کا ایک عضو بی جے پی بھی ہے. لیکن، یہاں تو سیدھے سیدھے نام بھی اچھال دیا گیا. شیوسینا لیڈر سنجے راوت نے سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو اگلا صدر بنانے کا مطالبہ کرکے ایک نئی بحث کو چھیڑ دیا ہے. سنجے راوت کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت اگر ملک کے اگلے صدر بنتے ہیں تو آگے ہندو راشٹر کے خواب کو پورا کیا جا سکتا ہے. ان کے مطابق اگر ہم ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب پورا کرنا ہے تو بھاگوت کو ہی صدر جمہوریہ بنایا جانا چاہئے راؤت نے کہا کہ صدر جمہوریہ چناؤ میں حمایت کیلئے پارٹی کی طرف سے ادھو ٹھاکرے اس معاملے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔ صدر جمہوریہ کے چناؤ کے لئے فی الحال بی جے پی کے پاس 20؍ ہزار ووٹ کم ہیں۔ جبکہ شیو سینا کے پاس صدر جمہوریہ کے چنائو کے لئے 25 ہزار 893 ووٹ ہیں۔
سنگھ کے ایجنڈے میں پہلے ہی اس کا تصور ہے جس کا اظہار مختلف فورم سے وقت-وقت پر اپنے اپنے انداز میں کیا جاتا رہا ہے. لیکن، کبھی بھی سنگھ سیاست میں خود نہیں آتا. جی ہاں، اتنا ضرور ہے کہ اپنے رضاکاروں کو سیاست میں بھیج کر بی جے پی کے ذریعے اپنے ایجنڈے پر عمل ضرور کرواتا ہے. سنگھ کے رضاکار سے لے کر یونین پروموشنل تک بی جے پی کے اندر اندر سی ایم سے لے کر پی ایم تک بنے ہیں. لیکن، براہ راست سنگھ کے سربراہ کو صدر کے عہدے پر بٹھانے کا مطالبہ پہلی بار ہو رہا ہے.
بی جے پی کے ساتھ قدرے وقت گزارنے کے بعد شیو سینا کے ساتھ تعلقات میں تلخی بھی نظر آرہی ہے. لیکن، اس کھٹاس کے باوجود شیوسینا نے ایک علیحدہ لائن لے کر صدارتی انتخابات کی مہم جوئی کو بڑھا دیا ہے.
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ختم ہو گئے ہیں. نئی نئی حکومتیں بھی بن گئی ہے. ابھی بحث یوگی-یوگی کی ہو رہی ہے. یوگی راج کے آغاز کا خمار اب ہندوتو کے Sweepstakes کے لوگوں کے ماتھے سے اترا بھی نہیں ہے کہ شیو سینا کے شگوفے نے ماحول میں دوبارہ ہندوتوا کی ایک نئی لہر اُبھارنی شروع کر دی ہے.
نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد اب ہندوتوا کے پوسٹر بوائے یوگی کے ہاتھوں میں یوپی کی کمان آ گئی ہے. یوپی يوگي میے اور ملک مودي میے ہو چلا ہے. ابھی شیو سینا بھاگوت مے بنانے کی کوشش میں ہے.
حالانکہ، یہ شیوسینا کی تاریخ ہے کہ بی جے پی کے ساتھ رہنے کے باوجود وہ صدارتی انتخابات کے وقت بی جے پی کا ساتھ چھوڑنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتی ہے. پچھلی بار شیوسینا نے کانگریس کے امیدوار پرنب مکھرجی کی حمایت کی تھی تو اس سے پہلے پرتیبھا پاٹل کو حمایت دے کر بی جے پی سے الگ راہ اختیار کر لیا تھا. یہ بات تب کی ہے جب بی جے پی کے ساتھ شیوسینا کے رشتے اچھے رہے ہیں. اب تو دونوں کے درمیان تلواریں کھینچی رہتی ہیں. ایسے میں سنگھ سربراہ کے ہی نام کو آگے کرکے شیوسینا نے ایک بڑا داؤ کھیل دیا ہے.
وزیر اعظم نے شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کو صدارتی انتخابات پر بات چیت کے لئے دہلی بلایا ہے. لیکن، اس سے پہلے شیوسینا کے اس ماسٹر اسٹروک نے بی جے پی کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے.