خبطی ’ وکاس‘ کا تازہ ترین سروے ، مہنگائی آسمان پر ،اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ، نومبر میں شرح 15 ماہ بلند سطح پر
نئی دہلی ،12؍دسمبر (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا) سبزیاں، پھل او ر انڈوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کی بری خبر ہے ۔ دن رات ٹی وی ڈیبیٹ نے عوام کو اس قدر غافل اور نکما کر دیا ہے کہ آج ہونے والے ہندو۔ مسلم موضوع پر پارٹی کے بکواس ترجمان کی ہنگامہ آرائی کو تو یاد رکھتے ہیں ؛ لیکن ہم اپنی روز مرہ زندگی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا احساس نہیں کرسکتے ؛ کیوں کہ پارٹی کے ترجمان نے ہمیں اپنی تقریروں اور بیانات سے ’’ انسانی بم ‘‘ بنادیا ہے ۔ مبارک ہو ان لوگوں کو جو ان مباحث میں الجھ کر اپنا وقت اور اپنا سرمایہ برباد کرر ہے ہیں۔ ملک میں ترقی ہورہی ہے ؛ لیکن ہم اس ترقی کو نہیں سمجھ سکتے ۔لیجئے ! جہاں فرقہ وارانہ بیانات اور ٹی وی کے ’’ ٹی بی ‘‘میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اشیاء خوردنی کے لیے آپ کو کچھ زیادہ ہی رقم خرچ کرنا پڑ سکتی ہے ۔ گھبرائیں نہیں یہ سب ہمارے کرتوت کا خمیازہ ہے ۔ایک تازہ اعداد و شمار اور سروے سے پتہ چلا ہے کہ اشیاء خوردنی پھل ،سبزیوں اور دودھ کی قیمتوں میں 15 ماہ میں سب سے زیادہ تیزی آئی ہے، بے روزگاری بڑھی ہے اور نوجوان طبقہ مایوسی کا شکار ہو رہا ہے ۔ خوردہ اشیاء کی مہنگائی شرح میں اضافہ کے ساتھ فی الوقت کسی طرح کی روک تھام کی امید نہیں ہے ۔ دراصل سرکار اور ریزور بینک کے درمیان ہوئے سمجھوتے کے مطابق خوردہ مہنگائی کی شرح کا ہدف 4 فیصد رکھا گیا ہے جس میں دو فیصد تک کمی بیشی منظور ہوگی۔ عام زبان میں کہیں تو خوردہ مہنگائی کی شرح دوسے چھ فیصد کے درمیان ہونا چاہئے تاہم تکنیکی طور پر ہدف چار فیصد تصور کیا جاتا ہے ۔ اب چونکہ خوردہ مہنگائی کی شرح چار فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے اور خود ریزرو بینک بھی کہہ چکا ہے کہ 31 مارچ کو ختم ہونے والے کاروباری سال 2017-18میں خوردہ مہنگائی شرح 4.3 سے 4.7 فیصد کے درمیان رہ سکتی ہے۔ ایسے میں مہنگائی کی شرح کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس کاروباری سال کے دوران سودپالیسی کی شرح میں کمی کے قطعی آثار نہیں ہیں ، قرض کی پالیسی پر اگلا جائزہ فروری میں ہوگا۔خوردہ افراط زر بڑھانے میں خوردنی اشیاء نے خصوصی کردار ادا کیا ہے ۔اعدادوشمار وزارت کے پیش کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نومبر کے ماہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی خوردہ مہنگائی کی شرح 4.42 فیصد رہی جبکہ اکتوبر میں یہ 1.9 فیصد تھی۔ صرف سبزیوں کی بات کریں تو نومبر کے مہینے میں خوردہ مہنگائی کی شرح 22.48 فیصد رہی، وہیں پھل کے معاملے میں یہ شرح 6.19 فیصد درج کی گئی ۔ یہ محض خوردہ اشیاء میں گرانی کے اعدادو شمار تھے ، انڈے نے بھی اپنی گرمی دکھائی ہے ۔ جہاں خوردہ مہنگائی کی شرح تقریباً آٹھ فیصد رہی۔ واضح ہو کہ 5 روپے کی شرح سے فروخت ہونے وا لا انڈہ چھ سے سات روپے کے درمیان آج کل بازاروں میں فروخت ہو رہاہے ۔سردی کے بڑھنے کے ساتھ ہی اس کی قیمتیں بھی گرم ہوں گی۔ وہیں چینی نے بھی اپنی مٹھاس کڑوی کر لی ہے ، چینی اور کنفیکشنری کے لیے خودرہ مہنگائی کی شرح 7.8درج کی گئی ہے ۔ چینی میں لگاتار تیزی قائم ہے اور اس میں بھی کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ دوسری طرف صنعتی ترقی کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اکتوبر کے مہینے میں صنعتی پیدوارکی رفتار سست ہوئی ہے اور 2.2کے ادنی معیار پر اس کی شرح نمو چلی گئی ۔ وہیں ستمبر کے مہینے میں یہ شرح 4 فیصد سے زیادہ تھی۔گرچہ گزشتہ اکتوبر میں صنعتی ترقی کی شرح 4.2 فیصدی ہے ۔ انڈسٹری کو سست کرنے میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کا خاصا رول ہے ، مینوفیکچرنگ کے بڑھنے کی شرح 2.5 ہی درج کی گئی جبکہ ستمبر کے مہینے میں یہ 3.8 فیصد تھی۔ مینوفیکچرنگ کی سست رفتاری روزگار کے مواقع پر اثر ڈالتی ہے،کیونکہ یہاں اگر ایک فرد کو روزگا ر ملتا ہے تو براہ راست اس سے چار لوگوں کے روزگار کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ یہ مہنگائی کی شرح میں بدترین اضافہ کا تجزیہ اور سروے ہے جب تک ہم اس سے باخبر ہوں گے تب تک کوئی نہ کوئی ٹی وی ایونٹ ہمارے درمیان چلا دیا جائے گا اور ہم منافرت کی آگ میں جھلستے رہیں گے اور مہنگائی اتنی بڑھے گی کہ آب و دانہ کے لیے گداگری پر مجبور ہوں گے ۔