2019 کے لیے اپوزیشن کی ورزش شروع، بہار میں بہار لیکن یوپی ڈالے گا پی ایم مودی کی راہ میں روڑا
نئی دہلی،20؍مئی ( ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا )کرناٹک میں55گھنٹے سے بھی زیادہ چلے سیاسی ڈرامہ کے بعد آخر کار یدورپا کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیناپڑا۔اب کانگریس کی حمایت سے جے ڈی ایس کی حکومت بنے گی اور کمارسوامی وزیر اعلی کی کرسی پر بیٹھیں گے۔بی جے پی کی حکومت گرنے کے بعد پریس کانفرنس کرنے آئے راہل گاندھی نے کہا کہ 2019 میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر مودی کو ہرایں گے۔کرناٹک کی شکست سے وزیر اعظم مودی کے وجے رتھ میں تھوڑی سی بریک تو ضرور لگی ہے لیکن کیا اپوزیشن واقعی 2019 میں مودی کو چیلنج کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟ یہ سوال اس لیے کیونکہ 2019 میں ہونیوالے اقتدار کے مہاگٹھ بندھن سے پہلے اپنوں اور غیروں کا بھید ختم ہو چکا ہے۔کل تک دشمنی کا دم بھرنے والے سیاسی جماعت ابھی ساتھی بن کر سیاست کے نئے مساوات بنا رہے ہیں۔کرناٹک میں مہم کے دوران وزیر اعظم نے دعوی کیا تھا کہ کانگریس پی پی پی (پنجاب، پڈوچیری اور پریوار)پارٹی بن کر رہ جائے گی۔لیکن کرناٹک میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود ہاتھ سے اقتدار جانے کے دھکے نے بی جے پی کے تھنک ٹینک کو سوچنے پر مجبور تو ضرور کیا ہوگا۔ایک سال بعد عام انتخابات کی آزمائش میں جانے والی بی جے پی کے لئے کرناٹک کا نتیجہ ایک بڑا اشارہ ہے۔کرناٹک سے پہلے پی ایم مودی اور امت شاہ ایسے فتح رتھ پر سوار تھے جسے روکنا ناممکن نظر آرہا تھا۔لیکن کرناٹک نے اپنے انتخابی انتظام کے لئے مشہور بی جے پی کی نیند ضروراڑا دے گا۔بی جے پی کو اب اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ چھوٹی چھوٹی دقتیں (علاقائی پارٹیوں کا اتحاد)اسے آگے چل کر بڑی پریشانی میں ڈال سکتی ہیں۔اپوزیشن نے 2019 کے پیش نظر ورزش بھی شروع کر دی ہے اور اس میں این ڈی اے کے کچھ ناراض ساتھی بھی مدد کے لئے آگے آ سکتے ہیں۔ملک کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش کی بات کریں توبی جے پی کو یہاں 2014 کے مقابلے ابھی سخت چیلنج مل سکتا ہے۔بی جے پی نے 2014 کے عام انتخابات میں282نشستوں پر تاریخی جیت درج کی تھی جس سے اکیلے اتر پردیش سے ہی بی جے پی کے 71رکن پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔بی جے پی کا بہوجن سماج پارٹی، کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہواتھااورمودی کے جادوکے آگے جہاں سائیکل پنچر ہو گئی وہیں ہاتھی چھومنتر ہو گیا تھا لیکن 2019میں یہاں مودی کی راہ آسان نہیں ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کوبھی اس بات کا خوب احساس ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اصل چیلنج بنگال سے ملنے والاہے۔بنگال میں سیاست ترنمول کانگریس اور لیفٹ پارٹیوں کے درمیان ہی گھومتی رہی ہے لیکن بی جے پی یہاں ایک طاقت کے طورپر ابھرکرسامنے آنے کی کوشش میں ہے۔2004 کے لوک سبھا انتخابات میں مغربی بنگال میں جہاں بی جے پی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا تھا وہی 2009 میں ریاست کی 42 لوک سبھا سیٹوں میں سے ایک اور 2014 کے انتخابات میں بی جے پی2لوک سبھا سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔حالانکہ یہاں ہوئے پنچایت اور بلدیاتی تازہ انتخابی نتائج نے ایک بارپھرصاف کر دیاہے کہ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس سے بی جے پی ہی نہیں دوسری پارٹیوں کو بھی کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔40سیٹوں بہارمیں بی جے پی کی کہانی تھوڑی مختلف ہے۔2004 میں یہاں بی جے پی نے 5 لوک سبھا سیٹیں جیتی تھی۔2009کے انتخابات میں این ڈی اے اتحاد کو 31 سیٹیں ملی تھی جس میں سے 12 بی جے پی نے جیتی تھی۔جبکہ 2014 کے انتخابات میں نتیش کماراورلالو یادو جیسے جنات کے درمیان سے مودی 22سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہے تھے لیکن نتیش کے این ڈی اے کے پالے میں آنے کے بعد2019میں بی جے پی کو بہارمیں بڑی جیت کی امید ہے۔پی ایم مودی کی آبائی ریاست گجرات میں بی جے پی انتہائی مضبوط پوزیشن میں رہی ہے لیکن دسمبر میں ہوئے گجرات انتخابات میں بی جے پی کے کمزور کارکردگی کے بعد سوال اٹھ رہے ہیں۔کیا 26سیٹوں والے گجرات میں بی جے پی 2014کی طرح ہی 2019میں بھی کلین سویپ کر سکے گی؟