مولانا سلمان ندوی کی مسلم پرسنل لاء بورڈ سے علیحدگی؛ مسجد سے دستبرداری یا مسجد کو گفٹ نہیں دیا جاسکتا؛ پرسنل لاء بورڈ اپنے فیْصلہ پر اٹل
حیدرآباد۔/12فروری، ( ایس او نیوز) ایودھیا کی بابری مسجد مسئلہ پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے ممتاز عالم دین اور پرسنل لاء بورڈ کے رکن عاملہ مولانا سید سلمان حسنی ندوی نے بورڈ سے عملاً علحدگی اختیارکرلی اور علحدہ شریعت اپلیکشن بورڈ کی تشکیل کا اشارہ دیا۔
ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق جمعہ کو پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس عاملہ میں مولانا سید سلمان حسنی ندوی کے موقف پر کافی ہنگامہ آرائی ہوئی اور بورڈ نے عدالت کے باہر تنازعہ کی یکسوئی کی کوششوں کو مسترد کردیا جبکہ مولانا سلمان ندوی عدالت کے باہر اس مسئلہ کی یکسوئی کی مساعی کا آغاز کرچکے ہیں۔ مولانا سلمان ندوی نے کچھ ٹی وی چینلوں کو بیانات دیتے ہوئے بتایاکہ اجلاس عاملہ میں بعض ارکان کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے بعد انہوں نے بورڈ کی سرگرمیوں سے خود کو علحدہ کرلینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا سلمان ندوی نے اجلاس عاملہ میں بعض ارکان کی جانب سے ہلڑ بازی اور علمائے کرام کا احترام ملحوظ نہ رکھتے ہوئے کی گئی ہنگامہ آرائی کی تفصیلات بیان کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2 غیر عالم ارکان کمال فاروقی اور قاسم رسول الیاس نے منصوبہ بند انداز میں ہنگامہ کیا حالانکہ شرعی موقف سے وہ کسی بھی اعتبار سے واقف نہیں ہیں۔ مولانا سلمان ندوی نے واضح کیا کہ وہ بابری مسجد مسئلہ کی عدالت کے باہر دونوں مذاہب کی نمائندہ شخصیتوں اور مذہبی نمائندوں سے بات چیت کے ذریعہ یکسوئی کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حساس مسئلہ پر عدالت پر انحصار کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
مولانا سلمان ندوی نے کہا کہ وہ موجودہ اراضی کو مندر کی تعمیر کیلئے حوالے کرنے اور دوسرے علاقے میں مسجد اور یونیورسٹی کے قیام کی تجویز رکھتے ہیں۔ مسجد کا نام ’’ مسجد الاسلام ‘‘ اور یونیورسٹی ’’ اسلامک یونیورسٹی ‘‘ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 1949 سے مسجد میں نماز ادا نہیں کی گئی اور بتوں کو رکھنے کے بعد سے پوجا پاٹ کا سلسلہ بھی جاری ہے ایسے میں فقہہ حنبلی کے اعتبار سے مسجد کو دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی شرعی اجازت ہے۔ اس تجویز کا مقصد امن و امان اور بھائی چارگی کے ساتھ اس طویل متنازعہ مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی ضمانت حاصل کی جائے گی کہ مستقبل میں کسی اور مسجد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔
مولانا سلمان ندوی کے مطابق عاملہ کے اجلاس میں انہیں اظہار خیال سے روکنے کی کوشش کی گئی جس پر انہوں نے واضح کردیا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور پرسنل لا بورڈ ان کے خلاف کارروائی کیلئے آزاد ہے۔ ان کے مطابق مولانا ارشد مدنی، مولانا محمود مدنی اور مولانا ولی رحمانی نے گڑبڑ کرنے والوں کو ٹوکا اور ناراضگی جتائی جبکہ صدر پرسنل لاء بورڈ حضرت مولانا رابع ندوی خاموشی کے ساتھ اس واقعہ پر ناراض دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی چاہتے تو اسی زبان میں جواب دے سکتے تھے لیکن انہوں نے اکابرین امت کے احترام میں خاموشی اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ پرسنل لاء دراصل انگریزوں کا دیا ہوا نام ہے اور موجودہ وقت میں شریعت اپلیکیشن بورڈ کے قیام کی ضرورت ہے۔
مولانا سلمان ندوی نے ٹی وی چینلوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا گھمبیر الزام لگایا کہ ایک چھوٹے سے گروپ نے پرسنل لاء بورڈ کو عملاً اغوا کرلیا ہے اور بورڈ میں ان کی ڈکٹیٹر شپ چل رہی ہے۔ مولانا سلمان ندوی نے کہا کہ بورڈ کا کوئی بھی فیصلہ قرآن، حدیث اور شریعت نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت میں اظہار خیال کی آزادی ہے لہذا وہ بورڈ کی رائے کو قبول نہیں کرتے۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا سلمان ندوی نے کہا کہ اسد الدین اویسی اور دیگر ارکان نے شدت پسندی کو ہوا دی ہے۔ ایک اور سوال پر مولانا نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مولانا رابع ندوی اور مولانا ارشد مدنی کے علاوہ کسی اور پر وہ بھروسہ نہیں کرتے۔
حالانکہ بورڈ میں قریب چار سو اراکین شریک ہوئے تھے، مگر مولانا سلمان ندوی نے دعویٰ کیا کہ بورڈ کے اجلاس میں ملک بھر سے صرف 20 تا25 اہم اکابرین ہی شریک ہوئے ، انہوں نے اس بات کا بھی الزام لگایا کہ حیدرآباد میں ہونے والی میٹنگ میں حیدرآباد کے علماء کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے بیشتر علماء و دانشور ان کے موقف کے ساتھ ہیں۔ شریعت اپلیکیشن بورڈ کے ذریعہ وہ دیگر ابنائے وطن کو شریعت سے واقف کرانا چاہتے ہیں تاکہ اسلام کا صحیح تعارف پیش کیا جاسکے۔
اسد الدین اویسی کی جانب سے مسجد کی منتقلی کی شدت سے مخالفت سے متعلق سوال پر مولانا سلمان ندوی نے کہا کہ اسد اویسی قرآن کے ایک پارہ کا ترجمہ نہیں کرسکتے حتیٰ کہ سورہ فاتحہ کا ترجمہ بھی ممکن نہیں، وہ کس طرح شریعت کے بارے میں اظہار خیال کرسکتے ہیں۔ فقہہ حنبلی میں مسجد کی منتقلی کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد مقدمہ کی اہم فریق سنی وقف بورڈ عدالت کے باہر تنازعہ کی یکسوئی کے حق میں ہے۔ عدالت میں فیصلہ کی صورت میں اراضی پرسنل لاء بورڈ یا جمعیت علماء کو نہیں بلکہ سنی وقف بورڈ کو دی جائے گی۔ مولانا سلمان ندوی نے کہا کہ 20 یا 21 مارچ کو آئندہ حکمت عملی طئے کی جائے گی اور ایودھیا میں سادھوسَنتوں اور علماء کے ساتھ اجلاس طلب کرتے ہوئے عدالت کے باہر تنازعہ کی یکسوئی کی کاوشوں کو آگے بڑھایا جائے گا۔
مولانا سلمان ندوی نے کہا کہ 30 برسوں سے وہ بورڈ کی عاملہ کے رکن ہیں، مولانا علی میاں، مولانا منت اللہ رحمانی اور مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کے دور میں بھی انہوں نے سرگرم رول ادا کیا تھا لیکن آج سوٹ بوٹ اور کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے انہیں شریعت سمجھا رہے ہیں اور لقمہ دیا جارہا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ منصوبہ بند انداز میں عاملہ کے اجلاس میں بابری مسجد مسئلہ کو چھیڑ کر عدالت پر انحصار کا موقف اختیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے اپنے اس بیان کی وضاحت کیوں نہیں کی جس میں انہوں نے دعویٰ کے ساتھ کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو روہنگیا کی طرح قتل کی تیاری کی جاچکی ہے اور گاؤں میں ہتھیار تقسیم ہوچکے ہیں۔ بورڈ کے ترجمان آر ایس ایس کیمپوں میں شرکت اور ان کے قائدین سے قریبی روابط کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن ان معاملات کی وضاحت کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے بیشتر علمائے کرام کی یہی رائے ہے کہ بابری مسجد کے مسئلہ کا حل امن و آشتی کے ذریعہ ہونی چاہیئے۔ انہوں نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ 90 فیصد مسلمان اُن کے ساتھ ہیں۔