ناگپور کی تاریخی الف لدین مسجد کے انہدام والے معاملے میں حتمی سماعت21؍ مارچ سے جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں پیروی کے لیئے حذیفہ احمدی کی خدمات حاصل کیں : گلزار اعظمی
ممبئی16مارچ(ایس او نیوز؍ پریس ریلیز)ناگپور کی تاریخی الف لدین مسجد کے انہدام والے معاملے میں حتمی سماعت ۲۱ ؍ مارچ سے شروع کیئے جانے کے احکامات آج یہاں چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے جاری کیئے نیز مقامی انتظامیہ کو بھی حکم دیاہے کہ وہ عدالت میں مکمل دستاویزات کے ساتھ حاضر رہے ، یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے اخبار نویسوں کو دی ۔گلزار اعظمی نے بتایا کہ ناگپور شہرکے تلسی باغ نامی علاقے میں واقع مسجد الف الدیدین جس کی تعمیر 1796 میں ہوئی تھی جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے لیکن روڈکی توسیع کے نام پر اسے منہدم کرنے کے انتظامیہ نے احکامات جاری کیئے تھے جس کے بعد مقامی مسلمانوں نے نچلی عدالت اورممبئی ہائی کورٹ کی ناگپوربینچ میں پٹیشن داخل کی تھی لیکن عدالت نے انتظامیہ کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے مسجد کو منہدم کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے تھے ، ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا جہاں عدالت نے مسجد کے انہدام پر فوری طورپر روک لگا تے ہوئے جمعیۃ علماء کی عرضداشت کو سماعت کے لیئے منظور کرلیا تھا ۔گلزار اعظمی نے بتایا کہ ہا ئی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مقامی مسلمانوں نے جمعیۃ علماء سے رجوع کیا تھا جس کے بعد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو عدالت عظمی یعنی کے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس پر آج سماعت عمل میںآئی ۔گلزار اعظمی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ جس میں چیف جسٹس دیپک مشراء، جسٹس اے ایم کھانولکر اور ڈی وائی چندرچوڑ شامل ہیں کے روبرو معاملے کی سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء کی جانب سے ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی اور ایڈوکیٹ ستیہ جیت دسائی نے پیروی کی اور مسجد کے متعلق تاریخی حقائق سے عدالت کو آگاہ کیا اور عدالت کو بتایا کہ روڈ توسیع کے نام پر مسجد کو منہدم کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے جبکہ اس علاقے میں روڈ توسیع کی ضرورت ہی نہیں ہے اوراگرہے بھی تو مسجد منہدم کرکے روڈ توسیع نہیں کی جاسکتی بلکہ روڈ توسیع کے لیئے کسی دوسرے منصوبہ بنایاجاناچاہیے۔حذیفہ احمدی نے عدالت کو متعدد نقشوں کی مدد سے بتایا کہ روڈ کی توسیع کے دوران کئی ایک جگہوں پر روڈ کو تنگ کیا گیا کیونکہ ان جگہوں پر مندر یا اور کسی تاریخی عمارت قائم ہے لہذا اسی طرز پر مسجد کے مقام پر بھی روڈ کو تنگ کیا جاسکتا ہے نیز اگر روڈ کو تنگ نہیں کیا گیا تو مسجد کی صرف ایک صف ہی بچے گی اور باقی سب منہدم ہوجائے گی جو کہ اقلیتی فرقہ کے ساتھ زیادتی ہوگی لہذا عدالت کو اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔واضح رہے کہ مسجد الف الدین ایک تاریخی مسجد ہے جس کی تعمیر آج سے دو سو سال قبل عمل میں آئی تھی لیکن ناگپور کارپوریشن نے روڈ کی توسیع کے نام پور اسے مہندم کرنے کے احکامات جاری کیئے تھے ۔