بیدر میں گرلزاسلامک آرگنائزیشن کی جانب سے یومِ اُردو کا انعقاد؛ ”ایک قدم...اُُردو کی بقاء ترقی و ترویج کیلئے“
بیدر۔17/نومبر۔(محمدامین نواز/ایس او نیوز)گرلز اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کرناٹک (بیدریونٹ) کی جانب سے یومِ اُردو بعنوان ”ایک قدم...اُردو کی بقا ء ترقی و ترویج کیلئے“کا انعقاد بیدر میں منعقد ہوا جس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ ڈاکٹر سرورعرفانہ سی آر پی بھا لکی محکمہ تعلیمات عامہ بیدر نے کہا کہ اُردو جنوبی ایشیاء کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے۔برصغیر ہند کی آزادی کے بعد سے اس زبان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔انھوں نے کہا کہ انسان کا شاید سب سے بڑا تخلیقی کارنامہ زبان ہے۔ ہم دراصل زبان کے ذریعے اپنی ہستی کا اور اس رشتے کا اقرار کرتے ہیں جو انسان نے کائنات اور دوسرے انسانوں سے قائم کر رکھے ہیں۔انسان کی ترقی کا راز بھی بہت کچھ زبان میں پوشیدہ ہے کیونکہ علم کی قوت کا سہارا زبان ہی ہے۔اُردو زبان کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہندی‘فارسی‘اور عربی کی تمام آوازیں موجود ہیں۔اُردو کے حروف بجا ان تینوں زبانوں کے حروف بجا سے مل کر بنے ہیں تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس زبان میں دوسری زبانوں کے لفظوں اور محاروں کو اپنانے کی بڑی صلاحیت ہے۔ چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اُردو کا رسم الخط ابتداء سے فارسی ہے۔انھوں نے اُردو کی ترقی کے ضمن میں طائرانہ احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ اُردو زبان کی ترویج و ترقی میں چھاپے خانوں اور اخباروں‘رسالوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اُردو کے چھاپے خانے پہلے کلکتہ میں قائم ہوئے۔اس کے بعد ایک پریس 1831ء میں کانپور میں اور دوسرا لکھنؤ میں 1837ء میں کھلا۔ رفتہ رفتہ دہلی‘ممبئی‘ حیدرآباد غرض ملک کے سب بڑے شہروں میں چھاپے خانے کھل گئے اور اُردو کی کتابیں کثرت سے شائع ہونے لگیں۔
انھوں نے کہا کہ اہلِ وطن نے انگریزوں سے صحافت کا فن سیکھا‘چنانچہ دہلی‘ کلکتہ‘ لکھنؤ اور دیگر شہروں وغیرہ سے اخبارات جاری ہوئے۔اخبارات کی وجہ سے زبان ایک طرح کی یکسانیت اور ہم آہمگی آگئی اور مقامی بولیوں کا فرق کم ہوگیا۔محترمہ ڈاکٹر عرفانہ سرور نے کہا کہ اُردو کی ترقی میں اہم اور بڑا ذریعہ اُردو صحافت ہے۔ آج اُردو میں ہندوستان سے سینکڑوں کی تعداد میں اخبارات و رسائل نکلتے ہیں جن کو یہاں شمار نہیں کرایا جاسکتا ہے‘ لیکن جب اُردو کا غیر پیشہ ور طبقہ اُردو کی زبوں حالی کا رونا رونے لگا اور قارئین کی گھٹتی ہوئی تعداد کا شکوہ کرنے لگا تو ایسے حالات میں کارپوریٹ سیکٹر کو اندازہ ہوا کہ اُردو زبان کا بہت بڑا اسکوپ ہے اور اُردو زبان کے قارئین کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جہاں کاروبار ہوسکتا ہے۔چنانچہ اپنے بزنس کی ترویج اور اُردو کی سرپرستی کیلئے یہ طبقہ آگے آیا اور بہت سے اخبارات جو مالی بحران کی وجہ سے بند ہونے کی کگار پر پہنچ گئے تھے انھیں کارپوریٹس نے سہارا دیا۔ چنانچہ اسوقت ہندوستان کے کئی بڑے اخبار ات کارپوریٹس کی ملکیت میں ہیں۔اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اُردو اور اُردو والوں کے معاشی حالات کسی حد تک سدھر گئے۔سرکاری طورپر اُردو مدارس کا آغاز ہوا تو اساتذہ کے تقررات ہونے لگے اور اُردو ذریعہ تعلیم سے آج دنیا کے کونے کونے میں کئی افراد برسرِ روزگار ہیں۔انھوں نے آخر میں کہا کہ اُردو زبان ترقی کی راہ پر گامزن ہے بس محبانِ اُردو اُردو کے تئیں اپنا حق ادا کریں۔
مذکورہ بالا پروگرام کی کنوینئر بہن سعدیہ سبین اسی سی ایٹ جی آئی او تھیں‘پروگرام کا آغاز بہن عاقلہ ابو بکر اسو سی ایٹ جی آئی او کی قراء تِ کلام پاک سے ہوا۔افتتاحی کلمات بہن صفورہ فاطمہ اسو سی ایٹ جی آئی او نے ادا کئے۔بہن حنا کوثر اپلیکنٹ رکن جی آئی او نے ترانہ پیش کیا۔جبکہ بہن ڈاکٹر ذوالنورین ڈی. او.جی.آئی.او بیدر ڈسٹرکٹ نے بعنوان ”تعلیم کا مقصد معاشرہ کی تشکیل“پر خطاب کیا۔پروگرام میںمحترمہ صبیحہ خانم صاحبہ نا/مہ شعبہ خواتین بیدر نے اختتامی خطاب کیا۔ جبکہ بہن سعدیہ سبین اسو سی ایٹ جی آئی او بیدر نے تشکراتی کلمات پیش کئے۔پروگرام میں خواتین و طالبات کی کثیر تعدا دنے شرکت کی۔