شامی صدر کا بھائی ماہر الاسد کیمیائی حملوں میں قتل عام میں ملوث قرار
دبئی، 28/ نومبر (آئی این ایس انڈیا)جرمن میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کا بھائی ماہر الاسد دمشق کے دیہی علاقے غوطہ اگست 2013 میں بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ سیرین گیس کے ساتھ کیے گئے کیمیائی حملے میں ملوث تھا۔
جرمن میڈیا کی طرف سے جاری کردہ دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ بشارالاسد نے اپنے بھائی ماہر الاسد کو کیمیائی حملے کا "اختیار" دیا۔ مشرقی الغوطہ میں ہونے والے کیمیائی حملے میں ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقع نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
جرمن ٹی وی ڈوئچے ویلے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ جرمن وار کرائمز یونٹ کی تحقیقات میں شام میں سیرین گیس کے استعمال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کی گئی ہیں۔ یہ یونٹ سنہ 2002ء میں قائم کیا گیا تھا جسے دنیا بھر میں جرائم سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنے کا قانونی اختیار دیا گیا تھا۔
جرمنی میں ہونے والی تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ صدر بشارالاسد نے اپنے بھائی ماہر الاسد کو مشرقی الغوطہ میں مخالفین کے خلاف طاقت کے استعمال اور سیرین گیس کے ذریعے حملوں کی اجازت ی تھی۔ یہ حملہ اگست 2013ء کوکیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ ماہر الاسد کو شام میں صدر بشار الاسد کے بعد دوسرا طاقت ور شخص خیال کیا جاتا ہے۔ سنہ 2013ءکو ماہر الاسد شامی فوج کا کمانڈر ان چیف تھا۔
دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ شامی صدر نے براہ راست حملے کا حکم دینے کے بجائے اپنے بھائی کو ہدایت کی تھی کہ وہ سیرین گیس کے استعمال سمیت جو طریقہ بہتر سمجھتے ہیں استعمال کریں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ممنوعہ سیرین گیس کے ذریعے کیے گئے حملے میں صدر بشار الاسد بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق یہ ماہر الاسد ہی تھے جنہوں نے ذاتی طور پر آپریشنز کی سطح پر اور اس کی براہ راست نگرانی میں سرکاری حکم دیا۔
قانونی ماہر اور قانونی چارہ جوئی کی ٹیم کے ساتھ کام کرنے والے اسٹیو کوسٹاس کا کہنا ہے کہ جب ہم الغوطہ میں ہونے والے کیمیائی حملے میں ملوث عناصر کی کڑیاں ملاتےہیں تو یہ زنجیر شام کے ایوان صدر تک جا پہنچتی ہے۔
یہ قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کے 3 گروپوں، اوپن سوسائٹی جسٹس انیشی ایٹو، سینٹر فار میڈیا اینڈ فریڈم آف ایکسپریشنز اور سیرین آرکائیو گروپ نے جرمنی میں فیڈرل پراسیکیوٹر کے پاس گذشتہ اکتوبر میں مجرمانہ کیسز کی شکایات جمع کروائیں تھیں۔ ان میں کہا گیا تھا کہ شامی عہدے دار حزب اختلاف کے علاقوں میں سیکڑوں شہریوں کے قتل میں ملوث ہیں۔
مذکورہ بالا انسانی حقوق گروپوں کی شکایات وسیع پیمانے پر شواہد پر مبنی ہیں جس میں 2013 میں غوطہ میں سیرین گیس حملے کے سلسلے میں بشار الاسد کی طرف سے کیمیائی حملے کا حکم دینا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ادلب او خان شیخون کے مقامات پر بھی کیمیائی حملوں سے بچ جانے والے 50 افراد کے بیانات قلم بند کیے گئے جنہوں نے بتایا کہ شامی فوج نے ان پر ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔