حکم عدولی پر ٹیلی کام کمپنیوں اورحکومت پر برس پڑے جج ۔کہا، سپریم کورٹ کو بند ہی کیوں نہ کردیا جائے؟
نئی دہلی،15/فروری(ایس او نیوز/ایجنسی) 1.47 لاکھ کروڑ روپے کے ایڈجسٹڈ گراس ریونیو (اے جی آر) معاملہ میں سپریم کورٹ نے جمعہ کو ٹیلی کام کمپنیوں اور مرکز کے محکمہ ٹیلی کام کے رویہ پر برہمی کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود، بیشتر کمپنیوں کی جانب سے بقایا جات جمع نہ کروانے سے ناراض سپریم کورٹ نے کہا کہ کیا اس ملک میں کوئی قانون باقی نہیں بچا ہے؟ اس ملک میں رہنے سے بہتر ہے کہ اسے چھوڑکر چلاجانا چاہئے۔جسٹس مشرا نے حکومت سے بھی پوچھا ہے کہ ٹیلی کام کمپنیوں نے یہ نوٹیفکیشن کیسے جاری کیا کہ ابھی ادائیگی نہ کرنے پر کمپنیوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کو کیسے روکاگیا؟۔سپریم کورٹ نے یہ سوال بھی پوچھا ہے کہ کس افسرنے اتنی جرأت کی کہ ہمارے حکم پر روک لگا دی گئی۔اگر ایک گھنٹے کے اندر حکم واپس نہیں لیاگیا،تو اس افسر کو آج ہی جیل بھیج دیا جائے گا۔محکمہ ٹیلی مواصلات نے سپریم کورٹ کی ناراضی کے بعد یہ حکم واپس لے لیا ہے۔پھٹکار کے بعد مرکزی حکومت نے بھی جمعہ کی رات کے11:59منٹ تک بقایا رقم جمع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ خبر لکھے جانے تک اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہوسکا ہے۔ ووڈافون-آئیڈیا، ریلائنس کمیونی کیشن، ٹاٹا ٹیلی سروسز اور دیگر ٹیلی کام کمپنیوں کے منیجنگ ڈائریکٹرس کو17 مارچ کو ذاتی طورپر طلب کیاہے۔ جسٹس ارون مشرا کی صدارت والی بنچ نے ان کمپنیوں کے منیجنگ ڈائریکٹروں کو جمعہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے سبھی کو ذاتی طورپر 17 مارچ کو پیش ہونے کو کہا ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 24 اکتوبر کو حکم دیا تھا کہ ٹیلی کام کمپنیاں 23 جنوری تک واجبات جمع کروائیں۔ کمپنیوں نے اس فیصلے پر غور کرنے کی اپیل کی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کردیاتھا۔ اس کے بعد، ایئرٹیل، ووڈافون آئیڈیا اور ٹاٹا ٹیلی نے ادائیگی کے لئے مزید وقت کا مطالبہ کرتے ہوئے، نیا شیڈول طے کرنے کی اپیل کی۔ جمعہ کو سپریم کورٹ نے اسے بھی مسترد کردیا۔واضح رہے کہ ٹیلی کام کمپنیوں اور حکومت کے مابین گزشتہ 14 سالوں سے اے جی آر کو لے کر تنازعہ چل رہا تھا۔ 2015 میں ٹیلی کام ٹری بیونل نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ٹیلی کام کمپنیوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ ٹری بیونل نے کہا تھا کہ غیر بنیادی وسائل جیسے کرایہ، مستقل املاک کی فروخت پر منافع اور سود کو چھوڑ کر، باقی کو اے جی آر میں شامل کیا جائے گا۔غیر ملکی کرنسی کا تبادلہ (غیر ملکی کرنسی) ایڈجسٹمنٹ بھی AGR میں شامل تھی۔ تاہم، پھنسے ہوئے قرض، غیر ملکی کرنسی کے اتار چڑھاؤ اور فضول خرچیوں کو اس سے دور رکھا گیا۔ تنازعہ اس لئے تھا کہ حکومت نے کرایہ، مستقل پراپرٹی فروخت کرنے پر منافع اور اے جی آر میں ردی بیچنے سے حاصل ہونے والی رقم کو بھی شامل کیا تھا۔ 24 اکتوبر 2019 کے فیصلے میں، سپریم کورٹ نے حکومت کے حساب کتاب کو درست سمجھا۔ٹیلی کام کمپنیوں کو اسی بنیاد پر سود اور جرمانے سمیت بقایا فیسوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تھا۔ کمپنیوں کواے جی آر کا 3فیصداسپکٹرم فیس اور 8فیصد لائسنس فیس کے طور پر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔