کیا سدارامیا نے جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیئے، بی جے پی حکومت کو مستحکم قرار دے کر اپوزیشن لیڈر نے کانگریس کی شکست تسلیم کرلی؟
بنگلورو،7/دسمبر (ایس او نیوز) ریاستی اسمبلی سے نا اہل قرار پانے والے 17اراکین اسمبلی میں سے15کے حلقوں میں ضمنی انتخابات کے لئے پولنگ کا عمل جمعرات کے روز پورا ہو گیا۔ان انتخابات کو ریاست کے لئے اگلے تین سال کی سیاست کی روش طے کرنے والے سمجھا جا رہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران برسراقتدار بی جے پی، کانگریس اور جے ڈی ایس نے یہ دعوے کئے کہ تمام سیٹوں یا زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر ان کی کامیابی ہوگی۔ لیکن پولنگ کا عمل جیسے ہی چل پڑا ریاست کے سیاستدانوں نے شاید ووٹروں کے رجحان کو سمجھ لیااور انہوں نے اپنے تیور بھی ایک دوسرے کے تئیں نرم کر لئے۔ ایک طرف بی جے پی نے جو اب تک یہ دعویٰ کرتی آرہی تھی کہ تمام پندرہ سیٹوں پر وہ کامیاب ہوگی اس نے یہ موقف اپنایا ہے کہ ریاست کی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے جتنی سیٹوں پر کامیابی کی ضرورت ہے اتنی سیٹوں پر وہ ضرور کامیاب ہوگی۔ دوسری طرف سابق وزیر اعلیٰ اور اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سدارامیا نے بھی اس بیان سے تقریباً اتفاق کرلیا ہے اور دبے الفاظ میں یہ مان لیا ہے کہ کانگریس ان حلقوں میں کامیاب نہیں ہو سکے گی جن حلقوں میں اراکین اسمبلی نے بغاو ت کرکے بی جے پی کا رخ کیا تھا۔سابق وزیر اعلیٰ نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ ضمنی انتخابات کے بعد ریاست میں بی جے پی حکومت مستحکم ہو جائے گی۔ سدارامیا کا یہ اعتراف اس بات کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے کہ ضمنی انتخابات میں کانگریس امیدواروں کو کامیاب کرنے کی ذمہ داری جو کانگریس اعلیٰ کمان نے ان پر ڈالی تھی اس میں وہ تقریباً ناکام ہو چکے ہیں۔ ریاست کے بعض کانگریس قائدین سدارامیا کے طریقہ کار سے خوش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر قائدین نے انتخابی مہم سے خود کو دور رکھا یا پھر ان کی شرکت برائے نام ہی رہی۔ چند قائدین نے انتخابی مہم میں حصہ تو لیا لیکن انہوں نے سدارامیا کے ہمراہ انتخابی مہم چلانے سے گریزکیا جن میں سینئر کانگریس لیڈر ڈی کے شیو کمار بھی شامل ہیں۔ سدارامیا نے جس طرح سے پارٹی کے امیدواروں کے انتخاب میں اپنی اجارہ داری دکھائی اور سینئر رہنماؤں کے مشوروں کو نظر انداز کرکے اپنے حامیوں کو مقامی پارٹی رہنماؤں پر ترجیح دی اور مختلف حلقوں پر اپنے امیدوار کھڑا کئے اس پر ناراضی کی لہر شاید کانگریس کے امکانات کو متاثر کرسکتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ کسی نہ کسی طرح بی جے پی ریاست میں اپنا اقتدار بچانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی لیکن ضمنی انتخابات میں کانگریس نے اگر توقعات کے مطابق مظاہرہ نہیں کیا تو ممکن ہے کہ کانگریس کے وہ رہنما جو سدارامیا سے ناخوش ہیں وہ انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔سدارامیا کا یہ بیان کہ ان انتخابات میں کانگریس کو کم از کم 10سیٹو ں پر اور جے ڈی ایس کو ایک یا دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ کر کانگریس کی شکست کا تقریباً اعتراف کرلیا ہے کہ بی جے پی اگر ان انتخابات میں صرف پانچ سیٹوں پر کامیاب ہوتی ہے تب بھی اس کی حکومت مستحکم ہو جائے گی۔ آزاد اراکین ناگیش او ر مہیش کی مدد سے اسمبلی میں اس کی تعداد 112 ہو جائے گی جو اکثریت کے لئے کافی ہے۔