جے این یو کی خاتون پروفیسر کا الزام، مسلم ہونے کی وجہ سے ہراساں کیاجارہاہے
نئی دہلی،20/جولائی (ایس او نیوز) دہلی اقلیتی کمیشن نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی ایک خاتون پروفیسر کی شکایت پر کاروائی کرتے ہوئے جے این یو رجسٹرار کو نوٹس جاری کی ہے جس میں خاتون پروفیسر نے الزام لگایا ہے کہ انہیں مسلم ہونے کی وجہ سے پریشان اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ خاتون پروفیسر نے سینٹر فار دی اسٹڈی آف سوشل ایکسکلوجن اینڈ انکلوزیو کے ڈائریکٹر پر بھی تشدد کا الزام لگایا ہے۔
خاتون کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ جے این یو وائس چانسلر کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ان کے مطابق اپریل 2019 سے ان کی تنخواہ روک دی گئی ہے اور اس کی کوئی قانونی وجہ بھی نہیں بتائی گئی ہے،انہیں کلاس نہیں دیا جا رہا ہے۔ساتھ ہی انہیں پی ایچ ڈی اور ایم فل طالب علموں کا سپروائزر بھی نہیں بنایا جا رہا ہے۔پروفیسر نے الزام لگایا کہ انہیں میٹنگوں میں بلایا نہیں جاتا یہاں تک کہ انہیں آفیشیل میل اور انٹرنیٹ استعمال نہیں کرنے دیا جا رہا ہے۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے مطابق پروفیسر کا الزام ہے کہ جے این یو کی ویب سائٹ پر ان کا پروفائل بھی نہیں ہے۔خاتون پروفیسر ان سب وجوہات سے بہت پریشان ہیں پروفیسر نے اس بات کا بھی الزام لگایا ہے کہ جے این یو انتظامیہ کیمپس میں ہاؤسنگ کی سہولت خالی کرنے پر بھی دباؤ بنایا جارہا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ جے این یو جوائن کرنے سے پہلے متعلقہ پروفیسرمستقل فیکلٹی کے طور پر حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی میں چار سال پڑھاچکی ہیں، انہوں نے بتایا کہ پہلے بھی جے این یو میں اُن کی تنخواہ روک دی گئی تھی اور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ہی اُنہیں تنخواہ مل پائی تھی۔ پروفیسر نے الزام لگایا ہے کہ بہت سے طالب علم انہیں سپروائزر منتخب کرنا چاہتے ہیں، لیکن طالب علموں پر دوسرے پروفیسروں کو چننے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔خاتون پروفیسر کا ماننا ہے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے ہی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ان کا الزام ہے کہ انہیں جے این یو سے ہٹانے کی سازش رچی جارہی ہے۔دہلی اقلیتی کمیشن کے مطابق وہ ظلم و ستم سے اتنا پریشان ہو چکی ہیں کہ کئی بار خودکشی کرنے کا خیال بھی آچکا ہے۔خاتون پروفیسر کی شکایت کے بعد دہلی اقلیتی کمیشن نے جے این یو انتظامیہ کو نوٹس جاری کیا ہے اور یکم اگست تک جواب مانگا ہے۔