پچھلی تین دہائیوں سے ترقیاتی کام چھوڑ کر مساجد پر ریسرچ کرنے والا رکن پارلیمان اننت کمار ہیگڈے ۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 18th January 2024, 2:40 PM | ساحلی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

کاروار 18 / جنوری (ایس او نیوز) اتر کنڑا کے عوام کی جانب سے رکن پارلیمان کے  منتخب ہونے والا اننت کمار ہیگڈے پارلیمنٹ سے ملنے والی تنخواہ کا پوری بے شرمی کے ساتھ فائدہ اٹھانے میں مصروف رہا ہے ۔ لیکن آج تک سال میں ایک مرتبہ بھی ملنے والا دو کروڑ روپے کا ایم پی فنڈ کہاں استعمال ہوا اس کا حساب و کتاب عوام یا خود اپنے کارکنان کے سامنے کبھی نہ رکھنے والا اننت کمار ہیگڈے اب پھر سے پارلیمانی امیدوار بننے کی تگ و دو میں لگ گیا ہے ۔ اور گزشتہ تین دہائیوں سے رکن پارلیمان رہتے ہوئے اس نے مساجد پر کی گئی اپنی رپورٹ اپنے کارکنان کے سامنے رکھنے اور انہی مساجد کی جگہ پر ہندو دیوتاوں کا نام جوڑنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔

    اب یہ اننت کمار کے پارٹی کارکنان کا کام ہے کہ وہ اس شخص سے پوچھیں کہ اسے مساجد پر ریسرچ کے لئے رکن پارلیمان بنایا گیا تھا یا پھر ترقیاتی کام انجام دینے کے لئے منتخب کیا گیا تھا ! اس ضلع کے ووٹرس جب   اننت کمار ہیگڈے سے گزشتہ تین برسوں کے دوران ضلع میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کے بارے میں پوچھیں تو وہ ا ندرا گاندھی کے خاندان کو گئو ہتھیا شاپ ہونے یا وزیر اعلیٰ سدا رامیا کو صیغہ واحد میں گالیاں بکنے اور مساجد جو ہیں وہ پہلے منادر ہونے کی باتیں شروع کرتا ہے ۔  ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے وہ ہمالیہ پر دھیان لگا کر بیٹھا تھا اور گزشتہ پانچ مرتبہ کی طرح اب چھٹویں مرتبہ بھی رکن پارلیمان بننے کے لئے باہر نکل آیا ہے ۔ 

    میڈیا کے سامنے اننت کمار کا یہ کہنا ہے کہ ترقیاتی کاموں کا حساب و کتاب رکھا نہیں جاتا ۔ سماجی اور ثقافتی ترقی کو اہمیت دی جانی چاہیے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رکن پارلیمان کو ملنے والے فنڈ کے بارے میں تم لوگ سوال مت پوچھو ۔ سوال یہ ہے کہ آدمی کو ترقیاتی کام کیے بغیر صرف بھاشن کرتے ہوئے دن گزارنا ہے تو پھر اس شخص کو ہی کیوں پارلیمنٹ میں جانا چاہیے ۔ دوسرے کسی اور کو کیوں نہیں منتخب کیا جانا چاہیے ؟

    اننت کمار کو یاد رکھنا چاہیے کہ ووٹرس اس کو ضلع کی ترقی کے منصوبے بنانے کے لئے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں ۔ سنگھیوں کا الزام ہے کہ ہماری تنظیم آر ایس ایس میں تبدیل ہوگئی ہے مگر یہ اس رکن پارلیمان کی ذہنیت تبدیل نہیں ہوئی ۔ بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت اور مودی کی سوچ میں فرق ہے ۔ انتخاب سامنے آتے ہی منافرت بھرے بیانات دینا آر ایس ایس کے اصولوں کے خلاف ہے ۔ اصولوں اور پالیسی کے معاملے میں سیاسی کاروبار نہ کرنے کی ہدایت سختی کے ساتھ آر ایس ایس نے دے رکھی ہے ۔ آر ایس ایس کے سرسنگھ  سنچالک موہن بھاگوت نے ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ مسلمان بھی اس ملک کی مختلف ذاتوں اور طبقات میں  سے ایک ہیں ۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے والی بات کو ماننا چاہیے ۔ اننت کمار ہیگڈے کے منافرت اور اشتعال انگیز بیانات پر خود  بی جے پی والوں نے ہی اخباری بیانات دیتے ہوئے کہا ہے کہ تخریبی سوچ سے بی جے پی کی پالیسی سے میل نہیں کھاتی ۔ 

    بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنے اصولوں میں تبدیلی لائی ہے ، کیونکہ وزیر اعظم مودی کی شخصیت بڑی حد تک مسلمانوں سے قربت کا پیغام دیتی ہے ۔ مودی گاندھی کے اصولوں کے خلاف بھی نہیں ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ان کے اندر تعصب بھی نہیں ہے ۔  مگر یہ جو شخص (اننت کمار) ہے ، وہ گزشتہ چار سال سے کہیں بھی سرگرمی نہیں دکھاتا اور انتخاب آتے ہی اپنی کوتاہی اور خاموشی چھپانے کے لئے مسلمانوں کو چھیڑنے کی راہ اپناتا ہے ۔ اس شخص نے گزشتہ انتخاب میں پارٹی کے لئے تشہیری مہم میں حصہ نہیں لیا ۔ اتر کرناٹکا کے لوگ اس شخص کو اپنے یہاں تشہیری مہم پر نہ بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ لیکن اسے ابھی تک عقل نہیں آئی ہے ۔ 

(کاروار سے شائع ہونے والے کنڑا روزنامہ کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ، مورخہ 17 جنوری 2024)

ایک نظر اس پر بھی

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا :  ڈکیتی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے  سائبر فراڈ  

اتر کنڑا ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں اخباری نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے ریاستی پولیس ٹریننگ شعبے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آلوک کمار نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر انجام دئے جانے والے سائبر فراڈ کا معاملہ ڈکیتی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ 

وہ مسجدیں اور عمارتیں جو نشانے پر ہیں ۔۔۔۔۔از: سہیل انجم

جب 1991 میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے عبادت گاہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا تو یہ توقع کی گئی تھی کہ اب کسی بھی تاریخی مسجد، مقبرے، درگاہ اور قبرستان پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی دفعہ چار کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی، اسی ...

یہ کون بچھا رہا ہے نفرت کا جال، کیا کرناٹک فرقہ وارانہ سیاست کا اکھاڑا بن چکا ہے؟۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک، جو کبھی ہندوستان کی ثقافتی تنوع، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی ایک جیتی جاگتی مثال سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسی صورت حال کا شکار ہے جو نہ صرف اس کی تاریخی وراثت پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے بلکہ اس کے معاشرتی و سیاسی استحکام کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ یہ سوال کہ ...

پلیس آف ورشپ ایکٹ لاگو ہونے کے باوجود مسجدوں کے سروے کیوں ؟ کیا سروے کرانے کی لسٹ میں شامل ہیں 900 مساجد ؟

بھلے ہی 1991 کے پلیس آف ورشپ ایکٹ ملک میں لاگو ہو،  جو یہ واضح کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 سے پہلے کے مذہبی مقامات کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، لیکن  80 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے دوران جو  نعرہ گونجا تھا: "ایودھیا صرف جھانکی ہے، کاشی-متھرا باقی ہے" ،  اس نعرے  کی بازگشت حالیہ ...

آئینہ دکھا تو رہے ہیں، مگر دھندلا سا ہے،ای وی ایم: جمہوریت کی حقیقت یا ایک بڑا تنازع؟۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

بھارت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے، اپنے انتخابی نظام میں ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کے استعمال کو لے کر طویل عرصے سے متنازعہ رہا ہے۔ ای وی ایم کے استعمال کو جہاں ایک طرف انتخابی عمل کی شفافیت اور تیزی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے ...

کرناٹک ضمنی انتخابات: مسلم ووٹ کا پیغام، کانگریس کے لیے عمل کا وقت۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک کے تین اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں مسلمانوں کی یکطرفہ حمایت نے کانگریس کو زبردست سیاسی برتری دی۔ مسلم کمیونٹی، جو ریاست کی کل آبادی کا 13 فیصد ہیں، نے ان انتخابات میں اپنی یکجہتی ظاہر کی، اور اب یہ کانگریس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے اعتماد کا بھرپور احترام ...

کرناٹک میں نکاح ناموں کا مسئلہ:   عدلیہ، حکومت اور برادری کی کشمکش۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک ہائی کورٹ نے حالیہ معاملے میں ریاستی وقف بورڈ کو نکاح نامے جاری کرنے کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک اہم قانونی اور سماجی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف مسلم برادری کے شرعی و قانونی معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے بلکہ حکومت اور عدلیہ کے دائرہ کار پر بھی سوالات ...