پچھلی تین دہائیوں سے ترقیاتی کام چھوڑ کر مساجد پر ریسرچ کرنے والا رکن پارلیمان اننت کمار ہیگڈے ۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)
کاروار 18 / جنوری (ایس او نیوز) اتر کنڑا کے عوام کی جانب سے رکن پارلیمان کے منتخب ہونے والا اننت کمار ہیگڈے پارلیمنٹ سے ملنے والی تنخواہ کا پوری بے شرمی کے ساتھ فائدہ اٹھانے میں مصروف رہا ہے ۔ لیکن آج تک سال میں ایک مرتبہ بھی ملنے والا دو کروڑ روپے کا ایم پی فنڈ کہاں استعمال ہوا اس کا حساب و کتاب عوام یا خود اپنے کارکنان کے سامنے کبھی نہ رکھنے والا اننت کمار ہیگڈے اب پھر سے پارلیمانی امیدوار بننے کی تگ و دو میں لگ گیا ہے ۔ اور گزشتہ تین دہائیوں سے رکن پارلیمان رہتے ہوئے اس نے مساجد پر کی گئی اپنی رپورٹ اپنے کارکنان کے سامنے رکھنے اور انہی مساجد کی جگہ پر ہندو دیوتاوں کا نام جوڑنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔
اب یہ اننت کمار کے پارٹی کارکنان کا کام ہے کہ وہ اس شخص سے پوچھیں کہ اسے مساجد پر ریسرچ کے لئے رکن پارلیمان بنایا گیا تھا یا پھر ترقیاتی کام انجام دینے کے لئے منتخب کیا گیا تھا ! اس ضلع کے ووٹرس جب اننت کمار ہیگڈے سے گزشتہ تین برسوں کے دوران ضلع میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کے بارے میں پوچھیں تو وہ ا ندرا گاندھی کے خاندان کو گئو ہتھیا شاپ ہونے یا وزیر اعلیٰ سدا رامیا کو صیغہ واحد میں گالیاں بکنے اور مساجد جو ہیں وہ پہلے منادر ہونے کی باتیں شروع کرتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے وہ ہمالیہ پر دھیان لگا کر بیٹھا تھا اور گزشتہ پانچ مرتبہ کی طرح اب چھٹویں مرتبہ بھی رکن پارلیمان بننے کے لئے باہر نکل آیا ہے ۔
میڈیا کے سامنے اننت کمار کا یہ کہنا ہے کہ ترقیاتی کاموں کا حساب و کتاب رکھا نہیں جاتا ۔ سماجی اور ثقافتی ترقی کو اہمیت دی جانی چاہیے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رکن پارلیمان کو ملنے والے فنڈ کے بارے میں تم لوگ سوال مت پوچھو ۔ سوال یہ ہے کہ آدمی کو ترقیاتی کام کیے بغیر صرف بھاشن کرتے ہوئے دن گزارنا ہے تو پھر اس شخص کو ہی کیوں پارلیمنٹ میں جانا چاہیے ۔ دوسرے کسی اور کو کیوں نہیں منتخب کیا جانا چاہیے ؟
اننت کمار کو یاد رکھنا چاہیے کہ ووٹرس اس کو ضلع کی ترقی کے منصوبے بنانے کے لئے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں ۔ سنگھیوں کا الزام ہے کہ ہماری تنظیم آر ایس ایس میں تبدیل ہوگئی ہے مگر یہ اس رکن پارلیمان کی ذہنیت تبدیل نہیں ہوئی ۔ بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت اور مودی کی سوچ میں فرق ہے ۔ انتخاب سامنے آتے ہی منافرت بھرے بیانات دینا آر ایس ایس کے اصولوں کے خلاف ہے ۔ اصولوں اور پالیسی کے معاملے میں سیاسی کاروبار نہ کرنے کی ہدایت سختی کے ساتھ آر ایس ایس نے دے رکھی ہے ۔ آر ایس ایس کے سرسنگھ سنچالک موہن بھاگوت نے ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ مسلمان بھی اس ملک کی مختلف ذاتوں اور طبقات میں سے ایک ہیں ۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے والی بات کو ماننا چاہیے ۔ اننت کمار ہیگڈے کے منافرت اور اشتعال انگیز بیانات پر خود بی جے پی والوں نے ہی اخباری بیانات دیتے ہوئے کہا ہے کہ تخریبی سوچ سے بی جے پی کی پالیسی سے میل نہیں کھاتی ۔
بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنے اصولوں میں تبدیلی لائی ہے ، کیونکہ وزیر اعظم مودی کی شخصیت بڑی حد تک مسلمانوں سے قربت کا پیغام دیتی ہے ۔ مودی گاندھی کے اصولوں کے خلاف بھی نہیں ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ان کے اندر تعصب بھی نہیں ہے ۔ مگر یہ جو شخص (اننت کمار) ہے ، وہ گزشتہ چار سال سے کہیں بھی سرگرمی نہیں دکھاتا اور انتخاب آتے ہی اپنی کوتاہی اور خاموشی چھپانے کے لئے مسلمانوں کو چھیڑنے کی راہ اپناتا ہے ۔ اس شخص نے گزشتہ انتخاب میں پارٹی کے لئے تشہیری مہم میں حصہ نہیں لیا ۔ اتر کرناٹکا کے لوگ اس شخص کو اپنے یہاں تشہیری مہم پر نہ بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ لیکن اسے ابھی تک عقل نہیں آئی ہے ۔
(کاروار سے شائع ہونے والے کنڑا روزنامہ کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ، مورخہ 17 جنوری 2024)