آسام میں سرکاری خرچہ پر چل رہے ریاست کے سبھی مدارس کو بند کرنے کے فیصلہ پر چو طرفہ تنقید؛ ایس ڈی پی آئی نے فیصلہ واپس لینے کا کیا مطالبہ
نئی دہلی 16 اکتوبر (ایس او نیوز) آسام کے وزیر تعلیم ہیمانتا بسوا سرما کے اس بیان پر کہ آسام میں حکومت کے تعاون سے چلائے جانے والے سبھی مدرسوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بی جے پی حکومت پر چو طرفہ ناراضگی ظاہر کی جارہی ہے اور بی جے پی حکومت کے اسلام مخالف رویہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔
وزیر تعلیم ہیمانتا بسوا سرما نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ آسام میں حکومت کے تعاون سے چلائے جارہے مدرسوں سمیت ثقافتی اسکولوں کو بھی بند کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
آسام کے وزیرتعلیم کے بیان پر سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے قومی صدر ایم کے فیضی نے اس فیصلے کو اسلاموفوبیہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مخالفت کی ہے اور آسام حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کو واپس لے۔
یاد رہے کہ وزیر تعلیم نے کہا تھا کہ آسام حکومت ریاست کے زیر انتظام سبھی مدارس کو بند کرنے کی نوٹیفیکشن نومبر میں جاری کرے گی۔ جس کے تحت ریاست کے تقربیا 100ثقاقتی اسکول بھی بند کئے جائیں گے۔ اور ریاستی حکومت کے زیر انتظام سبھی مدرسوں کو باقاعدہ اسکولوں میں تبدیل کیا جائے گا یا کچھ معاملات میں ٹیچروں کو ریاست کے زیر انتظام اسکولوں میں ٹرانسفر کیا جائے گااور مدرسوں کو بند کر دیا جائے گا۔
میڈیا میں آئی خبروں پر بھروسہ کریں تو وزیر تعلیم نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن کی تعلیم سرکاری خرچہ پر نہیں ہوسکتی۔ اگر ہمیں ایسا کرناہے تو ہمیں بائبل اور بھگوت گیتا دونوں کی بھی تعلیم دینی چاہئے۔ اس لئے ہم یکسانیت لانا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ مدرسوں میں قرآن اور اسلامی قانون کی تعلیم کے علاوہ حساب، تاریخ اور انگریزی جیسے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ ریاستی مدرسہ تعلیمی بورڈ (ایس ایم ای بی) کے مطابق آسام میں 614حکومت سے منظور شدہ مدرسے ہیں۔ جن میں 400 سینئراعلی مدرسے ہیں 112جونیئر اعلی مدرسے ہیں اور باقی 102کافی سینئر مدرسے ہیں۔ تقریبا منظٰور شدہ مدرسوں میں سے 57 مدرسے لڑکیوں کے ہیں اور تین لڑکوں کے ہیں جبکہ 554 مدرسے کو۔ ایڈ ہے اور 17مدارس اردو میڈیم سے بھی چل رہے ہیں۔