کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)
کاروار :یکم فروری (ایس اؤ نیوز )ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہ ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے عوام کوہی ذمہ دار ٹہرایا تھا۔وزیر موصوف کے حالیہ سیاسی چالیں ، بیانات اور رویہ پر غور کریں تواندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے کی طرح لگتاہے۔
اب سب کے سامنے ایک سوال پیدا ہورہاہے کہ وزیر اعلیٰ کو ’بیٹے ‘ کہہ کر ہتک کرنے والے اننت کمار ہیگڈے کا جس وزیر نے کوئی جواب نہ دیا ہو آخر وہ وزیر اعلیٰ کا استقبال کرنے کے لئے کھڑا ہوگا ؟۔ ’اہندا‘ نامی تنظیم کے ذریعے کانگریس کو اقتدارتک پہنچانے والے وزیرا علیٰ کو ایک ایم پی ’’بیٹے ‘‘ کہہ کر ہتک کرنے پر ضلع نگراں کار وزیر کی حیثیت سے اس کا جواب دیں گے تو سیاست کیسے ہوگی ؟ اگر ایسا ہے تو پھرسوال پیدا ہوتاہے کہ ’’کیا آپ کانگریس پارٹی کے سیاسی نمائندے ہیں ؟‘‘یا کانگریس مٹھ کے سوامی ہیں ؟۔
وزیر موصوف شروع شروع میں جب وزیر کا حلف لئے تھے تو آئی آر بی کا ٹول بندکراؤنگا، آئی آر بی شاہراہ کی تعمیر مکمل ہونے تک ٹول فیس کی ادائیگی نہیں ہوگی جیسی بڑی ٹھوس باتیں کہیں تھیں۔ اب وہی آئی آربی کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا کام روک کر پچھلی سرکار سے زیادہ گہری نیند میں ہے۔یہ توسب کو پتہ ہے کہ آئی آر بی کمپنی مرکزی وزیر نتین گڈکری کے خاندان والوں کی ہے اور پچھلی بی جےپی کی سرکارمیں کمپنی اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھی۔کانگریس کی نئی سرکاربنی تو امید تھی کہ کام رفتارپکڑے گا۔ لیکن تعمیری کام پچھلی سرکار سے بھی زیادہ سست روی کا شکار ہے۔عوام مذاق اڑا رہے ہیں کہ وزیر موصوف ٹول تو بند نہیں کراسکے۔ اگرانہیں موقع ملا تو یہ ٹول ناکہ ہی من پسند وزیر کے ضلع میں ٹرانسفر ضرورکروادیتے۔
وزیرا علیٰ سدرامیا کو’بیٹے ‘ کہہ کر مخاطب کرنےو الے ایم پی کے خلاف ریاست کے دیگر وزراء نے منہ توڑ جواب دیالیکن خود ایم پی کے ضلع نگراں کاروزیر کی خاموشی بڑا دکھ دینے والی ہے۔ ذرائع کی مانیں تو وزیرا علیٰ نے اپنے دوستوں کے درمیان جب متعلقہ ایم پی کا ذکر چھڑا تو وزیرا علیٰ نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا کہ میں ایک طرف ماہی گیروں کو پسماندہ ذات میں شامل کرنے کی کوشش میں ہوں، دوسری طرف ایک ایم پی مجھے ’بیٹے ‘ کہہ کر میری ہتک کرتاہے اور ہمارے ضلع نگراں کار وزیرکووہی ایم پی بہت پسند ہے؟ ۔
اگر ضلع کی ترقی یا کروالی اتسوا کی دعوت دینے کےلئے وزیر اعلیٰ کا سامنا ہوا تووزیر منکال وئیدیا کو یقینی طورپر خوف ستارہاہوگا کہ اگر وزیر اعلیٰ نے پوچھا کہ ’’کیا تم وہی ہو، جس نے رام کے تعلق سے بات کرنےو الے کی ذہنی حالت ٹھیک نہ ہونے کی بات کہی تھی ؟،کیا وہ تم ہی ہو جس نے ہماری کابینہ کے وزیر راجنا کے خلاف تنقید کی تھی ؟، کیا تم ہی ہماری کابینہ کے وہ وزیر ہو، جب مجھے ’بیٹے ‘ کہہ کر مخاطب کیاگیا تو اُس کو جواب نہیں دیا ؟ کیا تم وہی ہو جو ہماری پارٹی میں رہ کر بی جےپی کا نمائندہ ہے ؟، اس طرح کے سوالات اگر وزیراعلیٰ پوچھیں گے تو کیا جواب دیں گے ؟
ویسے ضلع کی طرف سے کاروار کے رکن اسمبلی ستیش سئیل کو وزیر بننا تھا، لیکن ماہی گیر طبقے سے کوئی دوسرا رکن اسمبلی نہ ہونے کی وجہ سے منکال وئیدیا کو وزیر بنایاگیا ہے۔ لیکن اپنی وزارت صرف کمانے اور انتظامیہ کو اپنی پکڑ میں لے کراپنا کام نکالنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اسی سے بیزار ہوکر کئی افسران ضلع سے اپنا تبادلہ دوسری طرف کرانے کی کوشش کئے جانےکی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
اقلیتوں کےا حسان کو بہت جلد بھلا دیا :موصوف وزیر کی جیت میں بھٹکل ودھان سبھا حلقہ کے سو فی صد اقلیتوں کارول بہت معنی رکھتاہے، انہی کے مکمل تعاون سے وہ رکن اسمبلی بنے ہیں، بالخصوص مسلم طبقہ نے اس بار جے ڈی ایس کی طرف سے الیکشن لڑنے والے عنایت اللہ شاہ بندری کو نہ صرف میدان میں نہیں اتارا بلکہ اپنے تمام ووٹ کانگریس کی جھولی میں ڈالتے ہوئے منکال وئیدیا کو 30ہزار سے زائد ووٹوں سے جیت دلائی۔ لیکن یہ کیسا انسان ہے کہ مسلمانوں کے احسان کو اتنی جلدی بھول گیا۔
ایم پی اننت کمارہیگڈے علی الاعلان بھٹکل کی مسجد کو ، ہندؤوں کی کہہ کرتنازعہ کھڑا کرتاہےاور یہ اپنی جیت کو اننت کمار کا احسان سمجھ کر خاموش رہتا ہے۔کیا ہے دھوکہ نہیں ہے؟ یہ کانگریس کےہیں یا بی جےپی کے ہیں ؟،آخر ودھان سبھا حلقہ کے اقلیتوں کی نمائندگی کون کرے گا ؟ کیا یہ وہی کانگریس کا نمائندہ ہےجس نے اقلیتوں کے ووٹوں سے جیت حاصل کی ہے!اتنا سب ہونے کےبعد بھی بھٹکل کے مسلمان بھائیوں نے فرقہ وارانہ بھائی چارگی اور خیر خواہی کی خاطر جس امن و شانتی کا مظاہرہ کیا ہے وہ واقعی اللہ کی دی ہوئی تعلیمات کا اثر ہے۔
(بشکریہ کنڑا روزنامہ کراولی منجاو۔۔۔ کاروار)