اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

Source: S.O. News Service | Published on 30th January 2024, 9:31 PM | ساحلی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

بھٹکل :30؍جنوری (ایس اؤ نیوز) ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہونے کا اعتماد رکھنےو الے ضلع نگراں کار وزیر منکال وئیدیا اگلے ایک مہینے میں ایک اور مٹھ کی تعمیر کئے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

اترکنڑا ضلع میں ایک دہے قبل تک مٹھوں کے اثرات کچھ زیادہ نہیں تھے۔ البتہ جب بی جےپی اقتدارمیں آئی اوریڈیورپا وزیراعلیٰ بنے تو یہاں ہوسا نگر کے شری رام چندر مٹھ کے شری راگھویشورسوامی کا گوکرن میں داخلہ ہوا توان کے بھگت بہت خوش تھے۔ اس دوران یڈیورپا کی کابینہ کے وزیر شیوانند نائک اکثریتی طبقہ نامدھاریوں کومتحد کرنے اُجیرے کے شری رام اکشھترا مٹھ کو قوت دینے کی بڑی کسرت کی۔ تب منکال وئیدیا ضلع پنچایت کے ممبر تھے اورانہوں نے ایم ایل اے بننے کا خواب دیکھنا شروع کیاتھا۔ بھٹکل ہوناور ودھان سبھا حلقہ میں کانگریس، بی جےپی کے ساتھ ساتھ بی جے پی سے الگ ہوئے یڈیورپا کی کے جے پی کے امیدوار اکثریتی نامدھاری طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے منکال وئیدیا گونڈا، موگیر، دیواڑیگا، گوڈا، جی ایس بی جیسے چھوٹےموٹے طبقات کے ساتھ برہمن طبقہ کے ووٹوں پرنظرجمائے ہوئے تھے۔ اسی منصوبے کے تحت منکال وئیدیا شری راگھویشور سوامی جی کے کٹر بھگت کہلانے لگے۔ سال 2013کے ودھان سبھا انتخابات میں مجلس اصلاح وتنظیم کا امیدوار بھی میدان میں رہنے کی وجہ سے منکال وئیدیا انہی چھوٹے موٹے طبقات کے تعاون سے ایم ایل اے بننے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ تو نتائج کے بعد ہی پتہ چلا کہ  شیوانندنائک کیوں ہارگئے کیونکہ شیوانند نائک کا نامدھاری طبقہ کومتحد کرنے اور مٹھ کو قوت دینے کی کوششوں  سے  بی جےپی خوش نہیں تھی پارٹی کی  اندرونی مار سے انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

منکال وئیدیا سال 2013 میں بطور آزاد امیدوار جیت کر رکن اسمبلی بن گئے اور کانگریس میں شامل ہوئے۔ منکال وئیدیا کو یہ اچھی طرح پتہ تھا سال 2018کا الیکشن آسان نہیں ہے، اسی لئے اکثریتی نامدھاری طبقہ کو لبھانے کےلئے شری رام اکشھتر کے شری برہمانند سرسوتی سوامی کے پیچھے پڑ کر ان کے بھی کٹر بھگت بن گئے اور اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے بھٹکل تعلقہ کے کریکال میں سوامی جی کی خواہش کے مطابق شری رام دھیان مندر کی تعمیر ہوئی تو اس کی  سب سےبڑی معاشی قوت منکال وئیدیا ہی تھے۔ لیکن کیاکریں، ریاست میں بھی مودی لہراور اقتدار مخالف تشہیر بازی کے چلتے بھٹکل ودھان سبھا حلقہ میں منکال ئیدیا تنظیم کی حمایت کے باوجود صرف4-5 ہزار ووٹوں سے ہارگئےمگر  بھٹکل ہوناور ودھان سبھاحلقہ کے عوام کی ہمدردی جٹانےمیں کامیاب ہوگئے۔ اور اسی ہمدردی نے انہیں سال 2023 کے انتخابات میں جیت سے ہمکنار کیا۔ اس دوران منکال وئیدیا ہوناور کے وکلیگا طبقہ کے ووٹوں پر نظر جمائے ہوئے ہیں اور شری آدی چن چن گری مٹھ کے بھگت بننے کی بھاگ دوڑ شروع کردی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ وکلیگا طبقہ کے حامیوں کے تعاون سے وہ مٹھ سے رابطہ کرنے اور اس کو مستحکم کرنےمیں منکال کامیاب ہوگئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چھوٹے موٹے طبقات اور اقلیتی طبقہ کے ووٹ متحد ہونے سے منکال وئیدیا نے شاندار جیت درج کی۔ اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اکثریتی طبقہ نامدھاری کے اندرچلنے والی منکال مخالف لہر کو کسی حد تک کم کرنے میں یہی برہمانند سرسوتی سوامی جی کی بھگتی منکال کے  کام آئی۔

اب مہان منکال وئیدیا وزارت کا عہدہ سنبھالے 8 مہینے ہورہے ہیں۔ ان کی چال چلن میں بہت کچھ تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ بات کہیں کی کہیں چلے جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ کئی سارے غیر ضروری شکوک و شبہات  ان کے دماغ میں بھرے پڑے ہیں۔ وکلیگا طبقہ کےشری آدی چن چن گری مٹھ کے بھگت ہونےکی وجہ سے  ہی اسی طبقہ کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کےشیوکمار کی عطا کردہ  وزارت کا احسان  مانتےہوئے منکال وئیدیا مارچ کے مہینے میں  ایک اور مندر کی تعمیر کےلئے معاشی قوت بننے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

مندر کی تعمیر کرنے سے ان کی تمنا ہے کہ  آئندہ بھی اپنے ووٹ بینک کی حفاظت کی جاسکے اپنی وزارت جاری رہے۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ ہوناور میں تعمیر ہونے والے دوسرے ضلعی شاکھا مٹھ کی تعمیرکے تعلق سے ان کے حامیوں کا گمان ہے کہ اس کے پیچھے بھی ایک چال ہے۔ وہ یہ کہ لوک سبھا انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی ہو، بدلتے حالات میں آئندہ بھٹکل ہوناور ودھان سبھا حلقہ کے پسماندہ اور اقلیتی طبقات ناراض  ہوجاتےہیں تو ظاہر ہے کہ منکال کےلئے یہ پریشان کن ثابت ہوگی تب پارٹی بدلنے سے ان کو کوئی روک نہیں سکے گا۔۔ کمٹہ ودھان سبھا کاحلقہ ان کے لئے بہتر ہونے کی بات کہی جارہی ہے۔ کیونکہ کمٹہ ودھان سبھا کے حلقہ میں ہوناور تعلقہ کے کچھ دیہات شامل ہیں۔ یہاں برہمن طبقہ کے ووٹ زیادہ ہیں، ان کے ساتھ ایک اوراکثریتی طبقہ وکلیگا اور ماہی گیربھی ہیں اور ان کا آشیرواد رہا تو جیت یقینی ہے۔ یہاں ایک  اور بات یہ ہے کہ لوک سبھا میں خواتین ریزرویشن بل منظور ہوا ہے، اگلے ودھان سبھا انتخابات کے دوران بھٹکل ودھان سبھا حلقہ خواتین کے لئے ریزرو کیاجاتاہے تو منکال وئیدیا کے لئے پڑوس کا ہوناور، کمٹہ حلقہ مناسب ہوگا۔ منکال وئیدیا کی موجودہ سیاسی چال چلن، بیانات پر غو رکریں تو وہ بی جےپی کے قریب محسوس ہوتےہیں ،منکال کے حمایتیوں کو امید ہے کہ آئندہ دنوں میں  فائدہ حاصل کرنا ہے تو اس طرح کے کام کرنے ضروری ہیں۔ 

(رپورٹ بشکریہ: کنڑا روزنامہ کراولی منجاو۔۔ کاروار)

ایک نظر اس پر بھی

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا :  ڈکیتی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے  سائبر فراڈ  

اتر کنڑا ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں اخباری نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے ریاستی پولیس ٹریننگ شعبے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آلوک کمار نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر انجام دئے جانے والے سائبر فراڈ کا معاملہ ڈکیتی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ 

وہ مسجدیں اور عمارتیں جو نشانے پر ہیں ۔۔۔۔۔از: سہیل انجم

جب 1991 میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے عبادت گاہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا تو یہ توقع کی گئی تھی کہ اب کسی بھی تاریخی مسجد، مقبرے، درگاہ اور قبرستان پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی دفعہ چار کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی، اسی ...

یہ کون بچھا رہا ہے نفرت کا جال، کیا کرناٹک فرقہ وارانہ سیاست کا اکھاڑا بن چکا ہے؟۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک، جو کبھی ہندوستان کی ثقافتی تنوع، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی ایک جیتی جاگتی مثال سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسی صورت حال کا شکار ہے جو نہ صرف اس کی تاریخی وراثت پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے بلکہ اس کے معاشرتی و سیاسی استحکام کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ یہ سوال کہ ...

پلیس آف ورشپ ایکٹ لاگو ہونے کے باوجود مسجدوں کے سروے کیوں ؟ کیا سروے کرانے کی لسٹ میں شامل ہیں 900 مساجد ؟

بھلے ہی 1991 کے پلیس آف ورشپ ایکٹ ملک میں لاگو ہو،  جو یہ واضح کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 سے پہلے کے مذہبی مقامات کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، لیکن  80 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے دوران جو  نعرہ گونجا تھا: "ایودھیا صرف جھانکی ہے، کاشی-متھرا باقی ہے" ،  اس نعرے  کی بازگشت حالیہ ...

آئینہ دکھا تو رہے ہیں، مگر دھندلا سا ہے،ای وی ایم: جمہوریت کی حقیقت یا ایک بڑا تنازع؟۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

بھارت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے، اپنے انتخابی نظام میں ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کے استعمال کو لے کر طویل عرصے سے متنازعہ رہا ہے۔ ای وی ایم کے استعمال کو جہاں ایک طرف انتخابی عمل کی شفافیت اور تیزی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے ...

کرناٹک ضمنی انتخابات: مسلم ووٹ کا پیغام، کانگریس کے لیے عمل کا وقت۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک کے تین اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں مسلمانوں کی یکطرفہ حمایت نے کانگریس کو زبردست سیاسی برتری دی۔ مسلم کمیونٹی، جو ریاست کی کل آبادی کا 13 فیصد ہیں، نے ان انتخابات میں اپنی یکجہتی ظاہر کی، اور اب یہ کانگریس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے اعتماد کا بھرپور احترام ...

کرناٹک میں نکاح ناموں کا مسئلہ:   عدلیہ، حکومت اور برادری کی کشمکش۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک ہائی کورٹ نے حالیہ معاملے میں ریاستی وقف بورڈ کو نکاح نامے جاری کرنے کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک اہم قانونی اور سماجی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف مسلم برادری کے شرعی و قانونی معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے بلکہ حکومت اور عدلیہ کے دائرہ کار پر بھی سوالات ...