ہاسن چرچ میں ہنگامہ کرنے والے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
ہاسن، یکم دسمبر (ایس او نیوز) ریاست کرناٹک کے ہاسن ضلع کے ایک چرچ میں جب مسیحی برادی کے لوگ اپنی خصوصی عبادت میں مشغول تھے ، تبھی راشٹرییہ سویم سیوک سنگھ کے ذیلی تنظیمیں بجرنگ دل و وشوہ ہندو پریشد کے ورکرز اچانک چرچ میں گھسے اور ہنگامہ کرنے کی کوشش کی۔
اس وقت چرچ میں خواتین کے علاوہ بچے بھی موجود تھے۔ بجرنگ دل کے ورکرز نے الزام لگایا کہ چرچ میں جبراً مذہب تبدیلی کی جارہی۔ اس موقع پر بجرنگ دل کے کارکنان نعرے بازی بھی کی، تاہم چرچ میں موجود افراد نے واضح طور پر کہاکہ وہ گرجا گھر میں اپنی مرضی سے عبادت کے لیے آئے ہیں اور کسی نے بھی ان پر زور زبردستی نہیں کی ہے۔بجرنگ دل کے کارکنان پر الزام ہے کہ مسیحیوں کی عبادت میں خلل ڈالتے ہوئے انہوں نے 'جے شری رام' کے کے نعرے لگائے اور مسیحیوں نے "ایسو ایسو" کے نعرے لگائے۔ حالانکہ موقع پر پہنچی پولیس نے بجرنگ دل کے کارکنا کو وہاں سے ہٹاکر حالات کو قابو میں لیا۔ تاہم کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی اطلاع نہیں ہے۔
اس پورے معاملے پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کرناٹک کے ارچبشاپ ڈاکٹر این ڈیوڈ نے کہاکہ چرچز میں کوئی مذہب تبدیلی نہیں کی جاتی۔ تاہم جو کوئی مجبور، مسکین، غریب یا وقت کا مارا آتا ہے، اس کی کونسلنگ کی جاتی ہے، اسے سدھارنے و ناخوشگوار حالات پر کیسے قابو پائیں اس کی تربیت دی جاتی ہے۔ ضرورت مندوں کی مدد کی جاتی ہے مذہب کی تبدیلی نہیں کی جاتی۔
ڈاکٹر ڈیوڈ نے کہاکہ ریاست بھر میں ایسے معاملات پیش آرہے ہیں، لیکن اس پرمحکمہ پولیس کی خاموشی اور حکومت کی جانب سے عدم کارروائی ان سماج دشمن عناصر کے حوصلے بلند کر رہی ہیں جو کہ معاشرے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔
اس موقع پر کل ہند جمعیت الصوفیا و المشائخ کے جنرل سیکرٹری صوفی ولی با قادری نے مذکورہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ' کہاکہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ فسطائی و فرقہ پرست طاقتوں کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ملک کی جمہوریت کو درپیش خطرات کے لیے آواز بلند کریں'۔
اس پورے معاملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کانگریس رہنما ڈاکٹر جونس نے کہاکہ یہ سب سنگھ پریوار و بھارتیہ جنتا پارٹی کی سازش ہے کہ جبراً مذہبی تبدیلی کے بہانے ریاست کے پر امن ماحول کو بگاڑنے میں مصروف ہے، جب کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔'
ڈاکٹر جونس نے وزیر اعلیٰ بومائی سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر چرچز میں ہنگامہ کرنے والوں پر سخت کارروائی کریں۔
یاد ریے کہ بی جے پی کی کرناٹک حکومت کی جانب سے یہ امکان ہے کہ 13 دسمبر سے شروع ہونے والے اسمبلی اجلاس میں مذہب تبدیلی مخالف بل پیش کرے۔