شیواجی نگر حلقے سے کانگریس کا راست مقابلہ بی جے پی سے عوام کو حلقے کی فلاح کے حق میں فیصلہ لینا ہوگا۔ انتشار سے فرقہ پرست بی جے پی کو فائدہ ہوگا: رضوان ارشد
بنگلورو،18/نومبر(ایس او نیوز) شیواجی نگر اسمبلی حلقہ جو ان اسمبلی حلقوں میں شامل ہے جس کے اراکین اسمبلی نے بی جے پی کے آپریشن کنول کا حصہ بن کر اپنی رکنیت سے استعفیٰ دیا اور نا اہل قرار پائے اس حلقے میں 5دسمبر کو ضمنی انتخابات کے لئے تینوں اہم سیاسی جماعتوں سے امیدوار میدان میں آچکے ہیں۔ حسب توقع کانگریس قیادت نے اس حلقے سے نوجوان رکن کونسل رضوان ارشد کو میدان میں اتارا ہے۔حالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران رضوان ارشد نے شیوجی نگر اسمبلی حلقہ میں پندرہ ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری حاصل کی تھی۔ اس لئے انہیں یقین ہے کہ ضمنی انتخاب میں وہ اپنے اس مظاہرے کو برقرار رکھیں گے اور ریاست کے اس اہم اسمبلی حلقے سے یہاں کے عوام کی نمائندگی کریں گے۔ رضوان ارشد نے جو پیر کی دوپہر اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنے والے ہیں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ حلقے کے تمام کانگریس رہنماؤں اور پارٹی کے کارپوریٹروں کی حمایت انہیں حاصل ہو چکی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ تمام کو اعتماد میں لے کر حلقے کے اہم اور سلگتے مسائل کی یکسوئی پر متوجہ رہیں اور ایک ایسا رکن اسمبلی بنیں جس تک ہمہ وقت عوام کو رسائی حاصل رہے اور وہ ان کے مسائل کو سمجھ کر انہیں حل کرنے کے لئے کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس حلقے میں راست مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیا ن ہے۔ بی جے پی وہ سیاسی قوت جو اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کو برداشت نہیں کرتی اور دوسری طرف کانگریس جو سکیولرذہنیت کے ساتھ تمام طبقات کو ساتھ میں لے کر چلنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بی جے پی جس نے شیواجی نگر حلقے کے سابق رکن اسمبلی روشن بیگ جیسے قائد کو دھوکہ دے سکتی ہے تو دیگر اقلیتوں کے ساتھ وہ کیا کرے گی اس کا اندازہ لگالینا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ آپریشن کنول کے ذریعے پیسے کا لالچ دے کر یا پھر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے اراکین اسمبلی کو ڈرا دھمکا کر بی جے پی نے ریاست کے اقتدار پر قبضہ کیا اور اب پندرہ اسمبلی حلقوں کے عوام پر ضمنی انتخاب کا بوجھ مسلط ہو چکا ہے۔ ان انتخابات میں عوام کو سکیولر ذہن رکھنے والی سیاسی قوت کو کامیاب بنا کر ایک بار پھر فرقہ پرست حکومت کو بے دخل کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے اقتدار پر آنے کے سو دن کے اندر ہی بی جے پی نے اپنی اقلیت دشمنی کے کئی ثبوت پیش کردئیے ہیں ان میں حضرت ٹیپو سلطان جینتی کی منسوخی، تعلیمی نصاب سے ان کو ہٹانے کی تیاری، محکمہ اقلیتی بہبود کو ناکارہ کرنے کی منظم کوشش اور اقلیتی بجٹ کا ایک روپیہ بھی جاری نہ کرنا، ریاست میں این آر سی نافذ کرنے کا علی الاعلان شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس حکومت کو یونہی جاری رہنے دیا گیا توآنے والے دنو ں میں اور بھی اقلیت مخالف فیصلے لینے سے وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ سال کے دوران مرکز میں برسراقتدار مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ، این آر سی، اور دیگر کئی حساس معاملوں میں اقلیت بالخصوص مسلم مخالف فیصلے لئے ہیں۔ اس سوال پر کہ ان کے خلاف اور بھی بہت سارے مسلم امیدوار میدا ن میں ہیں کیا اس سے اس خدشہ کو بڑھاوا نہیں ملتا کہ مسلم ووٹ بٹ سکتے ہیں رضوان ارشد نے کہا کہ ریاستی اسمبلی میں مسلم نمائندگی صرف 7ممبروں پر مشتمل تھی جو روشن بیگ کے استعفے کے سبب گھٹ کر 6ہو گئی ہے ایسے میں اس حلقے سے مسلم نمائندگی برقرار رکھنے کی ذمہ داری حلقے کے ذی فہم عوام پر ہے۔انہیں یقین ہے کہ حلقے کے عوام جذباتی نہ ہو کر ہوش مندی سے کام لیں اور حلقے کی ہمہ جہتی ترقی کے حق میں فیصلہ لیں۔