بھٹکل کی ہائی ٹیک مچھلی مارکیٹ بن گئی ہے مہاجر مزدوروں، آوارہ جانوروں اور بھکاریوں کا ٹھکانہ؛ کیا یہ ترقی کے نام پر غبن نہیں ؟
بھٹکل ، 21 / مئی (ایس او نیوز)ایسا لگ رہا ہے کہ بھٹکل میں ترقیاتی کاموں کا مطلب ہی حکومت کے پیسوں کا غبن کرنا رہ گیاہے ، ایسا لگتا ہے کہ یہاں بعض لوگ ایسے ہیں جو حکومت کی مختلف اسکیموں کے لئے منطور شدہ رقم کو چور راستے سے اپنے نام کروارہے ہیں جس میں بھٹکل سنتے مارکٹ کے قریب تعمیر شدہ ہائی ٹیک فش مارکٹ بھی شامل ہے۔ حکومت کی طرف سے فراہم کیے گئے کروڑوں روپیوں کے فنڈ سے تعمیر شدہ ہائی ٹیک مچھلی مارکیٹ آج مہاجروں، مزدوروں ، بے گھر بھکاریوں اور آوارہ جانوروں کی رہائش گاہ میں تبدیل ہوگئی ہے اور اپنے افتتاح کے چھ سال بعد بھی مچھلی فروشوں کا منھ دیکھنے کے لئے ترس رہی ہے ۔
جب نویدیت آلوا کو کراولی ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کا صدر بنایا گیا تھا تو اُس وقت آر وی دیش پانڈے ضلع انچارج وزیر تھے اور منکال وئیدیا بھٹکل کے رکن اسمبلی تھے، تو اُسی کراولی ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کے تحت منگلورو سے کاروار تک ہائی ٹیک مچھلی مارکیٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ منظور ہوا تھا ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر بھٹکل میں بھی ہائی ٹیک مچھلی مارکیٹ تعمیر ہوئی اور 6 سال قبل اس کا شاندار افتتاح بھی ضلع انچارج وزیر آر وی دیشپانڈے کے ہاتھوں عمل میں آیا تھا ۔
اس مارکیٹ کی بدنصیبی یہ ہے کہ افتتاح کے دن سے آج تک ایک دن کے لئے بھی یہاں مچھلی فروشوں نے قدم نہیں رکھا ۔ اس کے افتتاح کی تاریخ اور منصوبے کے خرچ وغیرہ کی تفصیلات والا جو کتبہ یہاں پر نصب کیا گیا ہے، پتہ نہیں کیوں اب اس پر کاغذ چپکا کر اسے چھپایا گیا ہے ۔
مارکیٹ کے اندر دیکھیں تو سڑک اور نالوں کے کام کے لئے بیرونی شہروں سے آنے والے مہاجر مزدوروں نے اسے اپنے کپڑے سکھانے اور قیام کرنے کا ٹھکانہ بنا لیا ہے ۔ بے گھر بھکاریوں کے لئے دھوپ اور بارش سے بچنے کا سہارا بننے کے علاوہ یہ مارکیٹ آوارہ مویشی اور کتوں کے لئے آرام سے وقت گزارنے کا مرکز بن گئی ہے ۔
اس ہائی ٹیک مارکیٹ کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ مچھلی فروش کسی قیمت پر یہاں آنا نہیں چاہتے ۔ قدیم بس اسٹینڈ سے متصل پرانی مچھلی مارکیٹ میں بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے باوجود مچھلی فروش وہاں سے ہٹنا نہیں چاہتے ۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ اسی پرانی مارکیٹ میں جدید سہولتیں فراہم کرتے ہوئے انہیں اسی جگہ مچھلی فروشی کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ آس پاس میں موجود دیگر دکاندار بھی اپنے تجارتی فائدے کو سامنے رکھ کر ان مچھلی فروشوں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
دوسری طرف جالی روڈ کراس، رنگین کٹا، نیشنل ہائی وے سے متصل جگہیں بھی مچھلی فروشی کے اڈے بنے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ چوتھنی میں بھی سڑک کنارے مچھلی فروشی ہوتی ہے ۔ ان میں سے کسی کو بھی نئی مچھلی مارکیٹ میں آنے اور وہاں پر مچھلیاں فروخت کرنے میں دلچسپی نہیں ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہائی ٹیک مارکیٹ بے گھروں کے لئے رہائش کا ٹھکانہ بن کر رہ گئی ہے ۔
اس مسئلے کو حل کرنے میں ٹی ایم سی چیف آفیسر سے لے کر ضلع کی ڈپٹی کمشنر بھی بے بس نظر آرہی ہیں، یہاں تک کہ ضلع انچارج وزیر بھی اِس ہائی ٹیک فش مارکٹ کو بُھلا چکے ہیں، آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیوں کروڑوں روپئے کی لاگت سے تعمیر اس مارکٹ کو مزدوروں اوربھکاریوں کا ٹھکانہ بننے دیا گیا، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔