یوپی اسمبلی انتخاب: لکھنؤ کینٹ سیٹ کے لیے بی جے پی میں گھمسان
لکھنؤ،17؍جنوری (ایس او نیوز؍ایجنسی) لکھنؤ کینٹ سیٹ اچانک ہی ایک انتہائی اہم اسمبلی حلقہ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس سیٹ کے لیے کئی سرکردہ بی جے پی لیڈروں نے داؤ لگانا شروع کر دیا ہے۔ حالانکہ اس سیٹ سے بی جے پی کے موجودہ رکن اسمبلی سریش تیواری بھی انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ ریتا بہوگنا جوشی نے 2017 میں یہ سیٹ جیتی تھی، اور اب وہ بھی اپنے بیٹے مینک جوشی کو میدان میں اتارنا چاہتی ہیں جو اپنی سیاسی پاری شروع کر رہے ہیں۔
الٰہ آباد سے لوک سبھا سیٹ جیتنے کے بعد ریتا بہوگنا جوشی نے 2019 میں لکھنؤ کینٹ سیٹ خالی کر دی تھی۔ جوشی ٹکٹ کے لیے زوردار پیروی کر رہی ہیں اور ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اگر رکن پارلیمنٹ راج ناتھ سنگھ اپنے بیٹے پنکج کے لیے ٹکٹ حاصل کر سکتے ہیں، اور راجویر سنگھ بھی ایک رکن پارلیمنٹ ہیں اور وہ اپنے بیٹے سندیپ سنگھ کے لیے ٹکٹ حاصل کر سکتے ہیں، تو ریتا بہوگنا جوشی بھی اپنے بیٹے کو میدان میں اتارنے کی حقدار ہیں۔
سابق رکن اسمبلی سریش تیواری نے 2019 میں یہاں سے ضمنی انتخاب جیت کر بی جے پی کے لیے سیٹ حاصل کی تھی۔ انھوں نے 1996، 2002 اور 2007 میں بھی یہ سیٹ جیتی تھی۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اس سیٹ پر نائب وزیر اعلیٰ دنیش شرما کی بھی نظر ہے، جہاں اعلیٰ ذات کے ووٹ کافی زیادہ ہیں۔ جب کہ دوسرے نائب وزیر اعلیٰ کیشو موریہ کو کوشامبی ضلع کے سراتھو سیٹ کے لیے امیدوار کی شکل میں نامزد کیا گیا ہے۔ شرما کی امیدواری کو منظوری دیا جانا باقی ہے۔ پارٹی کے ایک لیڈر کے مطابق دنیش شرما کینٹ سیٹ کو ترجیح دیں گے، جس میں 1.5 لاکھ برہمن ووٹرس ہیں۔ یہاں 60 ہزار سندھی اور پنجابی ووٹرس ہیں، جو روایتی طور سے بی جے پی حامی ہیں۔
خبر ہے کہ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کی چھوٹی بہو اپرنا یادو اس سیٹ سے انتخاب لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ پرتیک یادو کی بیوی اپرنا نے لکھنؤ کینٹ سیٹ سے 2017 کا انتخاب لڑا تھا، لیکن بی جے پی کی ریتابہوگنا جوشی سے ہار گئیں۔
قیاس لگائے جا رہے ہیں کہ اپرنا بی جے پی میں شامل ہونے کی تیاری کر رہی ہیں، لیکن ان کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب سماجوادی پارٹی نے انھیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا ہو۔ ان کے چچا شیوپال یادو پہلے ہی انھیں فیملی اور پارٹی میں رہنے اور کام کرنے کی صلاح دے چکے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی لیڈروں کو لگتا ہے کہ سریش تیواری کو اس سیٹ کے لیے پھر سے نامزد کیا جانا چاہیے کیونکہ انھیں ضمنی انتخاب میں چنے جانے کے بعد بمشکل دو سال ہی موقع ملا تھا۔