اُترپردیش کے کاس گنج میں فساد ہوا نہیں، کروایا گیا؛سنسنی خیز انکشاف؛ قتل کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوان موقع واردات پر ہی نہیں تھا

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 6th February 2018, 2:46 PM | ملکی خبریں |

لکھنؤ،5؍فروری( ایس او نیوز؍ ایجنسی) کاس گنج فساد اچانک اشتعال کے سبب نہیں ہوا بلکہ ایک منظم سازش کا نتیجہ ہے جس کا واحد مقصد ماحول کو خراب کرنا تھا۔ یہ انکشاف یوپی پولیس کے سابق آئی جی ایس دارا پوری نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کیا۔

واضح رہے کہ ’یونائٹڈاگینسٹ ہیٹ‘ نامی تنظیم کے بینر تلے جسٹس داراپوری کی قیادت میں ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے حال ہی میں کاس گنج کا دورہ کیا اور وہاں دونوں فرقوں کے افراد سے بات چیت اور پورے معاملے کی تفتیش کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی ۔ ٹیم میں داراپوری کے علاوہ ایڈوکیٹ اسد حیات اور جے این یو کے سابق طلباء یونین کے صدر موہت پانڈے بھی شامل تھے۔ جائزہ ٹیم نے پیر کو لکھنؤ کے پریس کلب میں اور دہلی میں اپنی رپورٹ جاری کی جس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ فساد کی ایک اہم وجہ پولیس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی ہے۔ ساتھ ہی فساد کے دوران خاکی وردی دھاریوں کا رویہ تعصب آمیز ار جانبدارانہ تو تھا ہی ما بعد فساد بھی جانچ پڑتال اور گرفتاری کے نام پر جو کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ یکطرفہ اور اقلیتوں کے خلاف ہیں۔ 

ٹیم نے سیاسی جماعتوں کے رول پر بھی سوال اٹھا یا ہے جنہوں نے لوٹ پاٹ اور آتشزنی سے خراب ہوئے ماحول کو پرامن کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور اس پر بھی سیاسی روٹیاں سینکتی رہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس فساد میں یکطرفہ بربادی ہوئی ہے جو اقلیتی فرقہ کی ہے۔ ان کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی، انہیں نذر آتش کیا گیا، 2عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے جبکہ کسی بھی غیر مسلم کی کوئی ایک دکان بھی نہ توڑ پھوڑ کا نشانہ بنی اور نہ ہی آگ کی نذر ہوئی ۔

رپورٹ کے مطابق ، عینی شاہدین نے بتایا کہ چندن کی آخری رسوم ادا کر کے لوٹ رہی بھیڑ میں 500تا 600؍افراد تھے جنہوں نے اقلیتوں کی دکانوں اور کھوکھوں میں توڑ پھوڑ اور آتشزنی کی ۔ مگر اس دوران بھی اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کسی غیر مسلم کی دکان کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔ جہاں آتشزنی سے غیر مسلموں کی دکانوں کے زد میں آجانے کا خدشہ تھا وہاں سے پر ہیز بھی کیا گیا ۔

چندن کی موت کے تعلق سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ابھی بھی موضوع بحث ہے کہ آخر اسے کس مقام پر اور کیسے گولی لگی ، یہ فائرنگ کس نے کی تھی؟ ایک مقامی شاہد کے حوالے سے رپورٹ کہتی ہے کہ چندن کو گولی ریلوے اسٹیشن روڈ پر لگی ہوگی اور عین ممکن ہے کہ یہ اس کے کسی دوست کے ذریعہ غلطی سے لگی ہو۔ ایک دیگر مقامی شخص کے مطابق، نوشاد پولیس کی گولی سے زخمی ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ پولیس کی ہی گولی سے چندن بھی زخمی ہوا ہواور اس کی موت ہوگئی۔ چندن کو گولی مارنے کے الزام میں سلیم کی گرفتاری بھی متنازع ہے۔ مقامی افراد اسے ہضم نہیں کر پارہے ہیں مقامی غیرمسلم افراد کے مطابق سلیم ایک معزز خاندان سے ہے جن کی بازار میں ایک دکان ہے۔ وہ صبح 9:30بجے تک یوم جمہوریہ کی تقریب میں چودھری مہدی حسن اسکول ملکہ روڈ میں تھا۔ وہیں اسے تصاد م کی خبر ملی۔ ہنگامہ کے دوران وہ عبدالحمید چوک پر تھا ہی نہیں۔ اسی طرح ، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس نے یا کسی نے بھی چندن کو اس کے گھر کے پاس گولی ماری ہوگی۔ اگر اس نے فائرنگ کی تو اس کی بندوق اور اس سے چھوڑی گئی گولی ، چندن کے جسم سے نکالی گئی گولی کی فورنسک جانچ سے سب کچھ صاف ہوجائے گا۔

سلیم یا اس کے اہل خانہ کے کسی بھی فرد کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے جبکہ چندن کا ریکارڈ مجرمانہ ہے وہ تین ماہ قبل ہی جیل سے چھوٹ کر باہر آیا تھا۔ اسی طرح ، چندن کو گولی لگنے کی دو اسٹوری ہیں ایک مقامی لوگ اور اس کے جسم کے نشان جبکہ دوسری کہانی پولیس کی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ چندن کی موت کے 14؍گھنٹے بعد ایف آئی آر درج کرانے کی وجہ بھی پولیس نہیں بتا پارہی ہے۔ اسی طرح گرفتاریوں میں بھی پولیس کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ ان لوگوں کی گرفتاری ابھی تک نہیں ہو پائی ہے جو ہنگامہ میں پیش پیش تھے جو ویڈیو فوٹیج میں صاف صاف بندوق لہراتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں۔ 

دہلی میں پویس کلب آف انڈیا میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرتے ہوئے وفد نے کئی بنیادی سوال اٹھائے۔ وفد کے رکن امت سین گپتا نے بتایا کہ 26؍ جنوری کے واقعات کے بعد کاس گنج میں اقلیتوں کی 27؍ دکانوں کو نذر آتش کیا گیا اور 2؍ مسجدوں میں آگ لگائی گئی ۔ اتنا سب ہونے کے باوجود مسلمانوں کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرائی گئی جبکہ متاثرین کے خلاف نہ جانے کن کن دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ 127؍ افراد کی گرفتاری عمل میں آئی جن میں سے 87؍ مسلم ہیں ۔ ان میں سے چندن کے قتل کے الزام میں 23؍ افراد گرفتار ہوئے تو سوال یہ ہے کہ بقیہ کو مسلم نوجوانوں کو کس الزام میں گرفتار کیا گیا جبکہ اکثریتی فرقے کا کوئی نقصان ہی نہیں ہوا۔

ایک نظر اس پر بھی

وی وی پیٹ معاملہ: سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ دوبارہ محفوظ رکھا

’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے بدھ کو مشاہدہ کیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور ووٹر کی تصدیق شدہ پیپر آڈٹ ٹریل میں مائیکرو کنٹرولرز کسی پارٹی یا امیدوار کے نام کو نہیں پہچانتے ہیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتا کی بنچ الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ڈالے ...

مودی حکومت میں بڑھی مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب خواتین پر گھریلو تشدد میں ہوا اضافہ: الکا لامبا

 ’’چنڈی گڑھ لوک سبھا سیٹ پر اس مرتبہ الیکشن تاریخی ثابت ہوگا۔ یہاں کے انتخاب کی لہر ہریانہ، پنجاب میں کانگریس کی فتح طے کرے گی۔‘‘ یہ بیان قومی خاتون کانگریس کی صدر الکا لامبا نے چنڈی گڑھ میں دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی مہنگائی و بے روزگاری کے معاملے میں ...

ہتک عزتی کے معاملہ میں راہل گاندھی کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے راحت، کارروائی پر روک

 کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو چائیباسا کے ایم پی-ایم ایل اے کورٹ میں ان کے خلاف چل رہے ہتک عزتی کے معاملہ میں بڑی راحت ملی ہے۔ جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ایم پی-ایم ایل اے کورٹ میں جاری کارروائی پر روک لگا دی ہے۔

مودی کی گارنٹی بے اثر رہی، اس لئے جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں: پی چدمبرم

 کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے کہا کہ 'دولت کی دوبارہ تقسیم' اور 'وراثتی ٹیکس' پر 'من گھڑت' تنازعہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس لوک سبھا الیکشن میں خوفزدہ ہے اور جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے کیونکہ 'مودی کی گارنٹی' کوئی اثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

فوج کی بھرتی کا کیا ہوا، مورینہ بجلی چوری کا گڑھ کیوں بن گیا؟ کانگریس کے مودی سے سوالات

کانگریس نے وزیر اعظم مودی کے مدھیہ پردیش میں انتخابی جلسہ سے قبل ریاست کو درپیش کچھ مسائل پر سوالات پوچھے اور دعویٰ کیا کہ ریاست کے دیہی علاقوں، خاص طور پر قبائلی بستیوں میں ’سوچھ بھارت مشن‘ ناکام ثابت ہوا ہے۔

این سی پی – شردپوار نے جاری کیا اپنا انتخابی منشور، عورتوں کے تحفظ کو ترجیح دینے کا وعدہ

این سی پی - شرد پوار نے لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنا منشور جاری کر دیا ہے۔ اس منشور میں خواتین کے تحفظ کو ترجیح دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایل پی جی سلنڈر کی قیمت کم کرنے کا بھی منشور میں وعدہ کیا گیا ہے۔ پارٹی نے اپنے منشور کا نام ’شپتھ پتر‘ (حلف نامہ) رکھا ہے۔