اُترپردیش کے کاس گنج میں فساد ہوا نہیں، کروایا گیا؛سنسنی خیز انکشاف؛ قتل کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوان موقع واردات پر ہی نہیں تھا
لکھنؤ،5؍فروری( ایس او نیوز؍ ایجنسی) کاس گنج فساد اچانک اشتعال کے سبب نہیں ہوا بلکہ ایک منظم سازش کا نتیجہ ہے جس کا واحد مقصد ماحول کو خراب کرنا تھا۔ یہ انکشاف یوپی پولیس کے سابق آئی جی ایس دارا پوری نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کیا۔
واضح رہے کہ ’یونائٹڈاگینسٹ ہیٹ‘ نامی تنظیم کے بینر تلے جسٹس داراپوری کی قیادت میں ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے حال ہی میں کاس گنج کا دورہ کیا اور وہاں دونوں فرقوں کے افراد سے بات چیت اور پورے معاملے کی تفتیش کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی ۔ ٹیم میں داراپوری کے علاوہ ایڈوکیٹ اسد حیات اور جے این یو کے سابق طلباء یونین کے صدر موہت پانڈے بھی شامل تھے۔ جائزہ ٹیم نے پیر کو لکھنؤ کے پریس کلب میں اور دہلی میں اپنی رپورٹ جاری کی جس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ فساد کی ایک اہم وجہ پولیس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی ہے۔ ساتھ ہی فساد کے دوران خاکی وردی دھاریوں کا رویہ تعصب آمیز ار جانبدارانہ تو تھا ہی ما بعد فساد بھی جانچ پڑتال اور گرفتاری کے نام پر جو کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ یکطرفہ اور اقلیتوں کے خلاف ہیں۔
ٹیم نے سیاسی جماعتوں کے رول پر بھی سوال اٹھا یا ہے جنہوں نے لوٹ پاٹ اور آتشزنی سے خراب ہوئے ماحول کو پرامن کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور اس پر بھی سیاسی روٹیاں سینکتی رہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس فساد میں یکطرفہ بربادی ہوئی ہے جو اقلیتی فرقہ کی ہے۔ ان کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی، انہیں نذر آتش کیا گیا، 2عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے جبکہ کسی بھی غیر مسلم کی کوئی ایک دکان بھی نہ توڑ پھوڑ کا نشانہ بنی اور نہ ہی آگ کی نذر ہوئی ۔
رپورٹ کے مطابق ، عینی شاہدین نے بتایا کہ چندن کی آخری رسوم ادا کر کے لوٹ رہی بھیڑ میں 500تا 600؍افراد تھے جنہوں نے اقلیتوں کی دکانوں اور کھوکھوں میں توڑ پھوڑ اور آتشزنی کی ۔ مگر اس دوران بھی اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کسی غیر مسلم کی دکان کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔ جہاں آتشزنی سے غیر مسلموں کی دکانوں کے زد میں آجانے کا خدشہ تھا وہاں سے پر ہیز بھی کیا گیا ۔
چندن کی موت کے تعلق سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ابھی بھی موضوع بحث ہے کہ آخر اسے کس مقام پر اور کیسے گولی لگی ، یہ فائرنگ کس نے کی تھی؟ ایک مقامی شاہد کے حوالے سے رپورٹ کہتی ہے کہ چندن کو گولی ریلوے اسٹیشن روڈ پر لگی ہوگی اور عین ممکن ہے کہ یہ اس کے کسی دوست کے ذریعہ غلطی سے لگی ہو۔ ایک دیگر مقامی شخص کے مطابق، نوشاد پولیس کی گولی سے زخمی ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ پولیس کی ہی گولی سے چندن بھی زخمی ہوا ہواور اس کی موت ہوگئی۔ چندن کو گولی مارنے کے الزام میں سلیم کی گرفتاری بھی متنازع ہے۔ مقامی افراد اسے ہضم نہیں کر پارہے ہیں مقامی غیرمسلم افراد کے مطابق سلیم ایک معزز خاندان سے ہے جن کی بازار میں ایک دکان ہے۔ وہ صبح 9:30بجے تک یوم جمہوریہ کی تقریب میں چودھری مہدی حسن اسکول ملکہ روڈ میں تھا۔ وہیں اسے تصاد م کی خبر ملی۔ ہنگامہ کے دوران وہ عبدالحمید چوک پر تھا ہی نہیں۔ اسی طرح ، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس نے یا کسی نے بھی چندن کو اس کے گھر کے پاس گولی ماری ہوگی۔ اگر اس نے فائرنگ کی تو اس کی بندوق اور اس سے چھوڑی گئی گولی ، چندن کے جسم سے نکالی گئی گولی کی فورنسک جانچ سے سب کچھ صاف ہوجائے گا۔
سلیم یا اس کے اہل خانہ کے کسی بھی فرد کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے جبکہ چندن کا ریکارڈ مجرمانہ ہے وہ تین ماہ قبل ہی جیل سے چھوٹ کر باہر آیا تھا۔ اسی طرح ، چندن کو گولی لگنے کی دو اسٹوری ہیں ایک مقامی لوگ اور اس کے جسم کے نشان جبکہ دوسری کہانی پولیس کی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ چندن کی موت کے 14؍گھنٹے بعد ایف آئی آر درج کرانے کی وجہ بھی پولیس نہیں بتا پارہی ہے۔ اسی طرح گرفتاریوں میں بھی پولیس کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ ان لوگوں کی گرفتاری ابھی تک نہیں ہو پائی ہے جو ہنگامہ میں پیش پیش تھے جو ویڈیو فوٹیج میں صاف صاف بندوق لہراتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں۔
دہلی میں پویس کلب آف انڈیا میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرتے ہوئے وفد نے کئی بنیادی سوال اٹھائے۔ وفد کے رکن امت سین گپتا نے بتایا کہ 26؍ جنوری کے واقعات کے بعد کاس گنج میں اقلیتوں کی 27؍ دکانوں کو نذر آتش کیا گیا اور 2؍ مسجدوں میں آگ لگائی گئی ۔ اتنا سب ہونے کے باوجود مسلمانوں کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرائی گئی جبکہ متاثرین کے خلاف نہ جانے کن کن دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ 127؍ افراد کی گرفتاری عمل میں آئی جن میں سے 87؍ مسلم ہیں ۔ ان میں سے چندن کے قتل کے الزام میں 23؍ افراد گرفتار ہوئے تو سوال یہ ہے کہ بقیہ کو مسلم نوجوانوں کو کس الزام میں گرفتار کیا گیا جبکہ اکثریتی فرقے کا کوئی نقصان ہی نہیں ہوا۔