بی جے پی کی سخت مخالفت کے باوجود ودھان سودھا میں ٹیپوجینتی کا شاندار انعقاد ۔سینکڑوں پرستاروں کی شرکت
بنگلورو11؍نومبر(ایس او نیوز) بشمول بنگلور ریاست کے دیگر مقامات پر بجرنگ دل اور بی جے پی کی پرزور مخالفت کے باوجود اس مرتبہ بھی ودھان سودھا کے بینکوئٹ ہال میں سرکاری سطح پر حضرت ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش شاندار پیمانے پر منایا گیا۔
اس تقریب میں شرکت نہ کرنے کا وزیراعلیٰ کمار سوامی نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا ۔ان کی جگہ نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر جی پرمیشورکو اس تقریب کا افتتاح کرنا تھا لیکن وہ بھی حاضر نہ ہوسکے اس لئے ریاستی وزیربرائے آبی وسائل ومیڈیکل تعلیم ڈی کے شیوکمار نے اس تقریب کا افتتاح کیا ۔ حالانکہ دعوت نامہ میں کہیں بھی شیوکمار کا نام نہیں تھا۔ سابق وزیر ورکن اسمبلی آرروشن بیگ کی صدارت میں منعقدہ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ ڈاکٹروں کے مشورہ پر وزیراعلیٰ کمارسوامی آرام کررہے ہیں۔ جبکہ نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹر جی پرمیشور ان کے ایک قریبی دوست سابق وزیر جنگیپا سخت علیل ہیں ۔ سنگاپور کی اسپتال میں زیر علاج ہیں ان کی عیادت کے لئے سنگاپور گئے ہوئے ہیں ۔اس لئے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے ٹیپو جینتی تقریب کا افتتاح کیا ۔
انہوں نے کہاکہ ہم واحد شیر میسور ٹیپو سلطان کی جینتی نہیں منارہے ہیں بلکہ مختلف عظیم شخصیتوں کی جینتی بھی مناتے ہیں جیساکہ پچھلی حکومتیں بھی مناتی آرہی ہیں ۔ ٹیپو جینتی منانے کے پس پشت کوئی سیاست نہیں ۔ ہماری پارٹی نے مذہب کو ہمیشہ سیاست سے دور رکھا ہے ۔ سیاست کے لئے مذہب کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ میرا تعلق قدیم میسور ریاست سے ہے جہاں دودھ اور ریشم عام ہے اور اس ملک میں ریشم کی ایجاد کرنے والے ٹیپو سلطان ہیں ۔ اس عظیم شخصیت کا احترام کرنا میرا فرض ہے ۔
ٹیپو سلطان صرف کرناٹک کا اثاثہ نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی میراث ہیں ۔ ان کا جنم دن منانے پر بی جے پی کو کیوں تکلیف ہے ؟ انہوں نے کہاکہ کسانوں کو آبپاشی کی سہولت فراہم کرنے کنمباڑی کا کٹہ سب سے پہلے ٹیپو سلطان نے تعمیر کروایا ۔جس سے تمام لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ اس عظیم شخصیت کو صرف مسلمانوں کا سلطان قرار دینا غلط ہے ۔اس ریاست کی ترقی اور تحفظ کے لئے ٹیپو سلطان نے جو قربانیاں دی ہیں ان کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ دستورکی دفعہ 16کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس دفعہ کے ساتھ جھانسی کی رانی لکشمی اور ٹیپو سلطان کی تصاویر چھپی ہیں ۔کیا دستور لکھنے والے تمام بے وقوف تھے صرف بی جے پی والے عقلمند ہیں؟ٹیپو سلطان کی حب الوطنی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متعلق وزیر موصوف نے کئی مثالیں بھی پیش کیں۔ جس وقت ایڈی یورپا اور جگدیش شٹر وزرائے اعلیٰ کے عہدوں پر تھے اور آر۔اشوک وزیر داخلہ امور تھے۔ ان تینوں نے نہ صرف ٹیپوجینتی تقاریب میں شرکت کی اورٹیپو کا روایتی پیٹھا پہنا بلکہ ٹیپو کی شجاعت اور حب الوطنی کے قصیدے بھی گائے۔ اب اس معاملہ کی آڑ میں سیاست کیوں؟ انہوں نے چیلنج کیا کہ مرکز میں بی جے پی حکومت ہے، مرکز سے ایسی ہدایت جاری کی گئی تو ہم ٹیپو جینتی منانا بند کردیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت ٹیپو سلطان کے چاہنے والوں کے ساتھ ہے۔ شیوکمار آپ کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہم آئندہ بھی ٹیپو جینتی مناتے رہیں گے۔
ٹیپو فرقہ پرست نہیں: آر۔ روشن بیگ نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ٹیپو سلطان فرقہ پرست نہیں تھے جیسا کہ ان پرالزام لگایا جاتا ہے۔ اگر وہ فرقہ پرست ہوتے تو مختلف مندروں کی ترقی تعمیر اور مرمت کے لئے سرکاری خزانے سے عطیہ جات جاری نہ کرواتے۔ انہوں نے کہاکہ ٹیپو سلطان کا جنم دن منانے کے لئے ہمیں بی جے پی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہم برسوں سے یہ یوم منارہے ہیں۔ مستقبل میں بھی مناتے رہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ملک کے صدر ہند رامناتھ کووند کا انتخاب بی جے پی ہی نے کیا ہے۔ ریاستی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ہند نے چار پانچ منٹ حضرت ٹیپو سلطان کی حیات اور خدمات پر روشنی ڈالی تھی۔ بی جے پی والوں نے انہیں تعریف کرنے کیوں نہیں روکا ؟انہوں نے مزید کہاکہ مرکزی بی جے پی حکومت پچھلے ساڑھے چار سال تک رام مندر کی تعمیر سے متعلق بے خبرر ہی۔ اب لوک سبھا انتخابات قریب ہیں۔ ملک کے عوام کو راغب کرنے کے لئے بی جے پی کے پاس کوئی حربہ نہیں۔ اب وہ ہندوؤں کی صف بندی کے لئے رام مندر کا راگ الاپ رہی ہے۔ ہندوؤں کو خوش کرنے کئی مقامات کے نام بدلے جارہے ہیں۔ جب کہ اس ملک پرجتنا حق ہندوؤں کا ہے اتناہی حق مسلمانوں کا بھی ہے۔ جنگ آزادی کی لڑائی میں ٹیپو سلطان شہید کے علاوہ اس ملک کے ہزاروں علمائے کرام نے بھی اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ اس ملک میں ہندو مسلمان مل کر رہنا چاہتے ہیں۔ ہم رام مندر کی تعمیر کے خلاف بھی نہیں۔ ایک سو سال قبل شاعر مشرق علامہ اقبال نے رام کو امام ہند کہا ہے یہ ہم بھولے نہیں ہیں لیکن سیاسی مقصد کے لئے سماج کو تقسیم کرنا بی جے پی بند کردے۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنا درست نہیں۔
ٹیپوسلطان کی چاہت مرتے دم تک باقی رہے گی: ریاستی وزیر بی زیڈ ضمیر احمد خان نے کہاکہ ہم ٹیپو جینتی پچھلے کئی برسوں سے منارہے ہیں۔ اتفاق سے تین سال قبل سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نے سرکاری سطح پر ٹیپو جینتی منانے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ چوتھا سال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کمار سوامی خراب صحت کی وجہ سے اور نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹر پرمیشور سنگاپور کے دورہ کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہ کرسکے۔ دونوں نے اپنی نیک خواہشات کے پیغامات روانہ کئے ہیں جسے پڑھ کر بتایا گیا۔ انہوں نے کہاکہ بی جے پی لیڈر پچھلے تین سال سے ٹیپوجینتی کی مخالفت کرتے آرہے ہیں تاہم اس مرتبہ ان کی مخالفت میں شدت آئی ہے کیونکہ لوک سبھا انتخابات قریب ہیں۔ وزیر موصوف نے ایڈی یورپا کی اس ویڈیو کلپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جس وقت وہ بی جے پی چھوڑ کر کے جے پی میں چلے گئے تھے تو اپنے آپ کو ٹیپو سلطان کا پرستار کہتے ہوئے مسلمانوں کو اپنا بھائی کہاتھا اور بی جے پی کو فرقہ پرست پارٹی قرار دیتے ہوئے واپس نہ جانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہ سب باتیں شاید ایڈی یورپا بھول گئے ہوں گے لیکن ہمیں یاد ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیپو سلطان نے مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤ ں کی مدد کی ہے اس کی تاریخ گواہ ہے۔ ٹیپو کے اکثر وزراء کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ بی جے پی والے اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دلوں میں ٹیپو سلطان کی چاہت مرتے دم تک باقی رہے گی اور ہر سال ہم ٹیپو سلطان کی سالگرہ مناتے رہیں گے۔ یونیورسٹی آف میسور میں شعبۂ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر کے۔ سداشیوا نے ٹیپو سلطان کی حیات وخدمات پر تاریخی دستاویزات کے حوالہ سے بے حد معلوماتی لکچردیا۔ ریاستی وزیر برائے کنڑا اینڈ کلچر ڈاکٹر جئے مالا نے تمام کا خیر مقدم کیا اور ٹیپو سلطان کی عظیم شخصیت پر مختصر روشنی بھی ڈالی۔ اس تقریب میں شریک اہم شخصیتوں میں رکن اسمبلی این اے حارث رکن کونسل رضوان ارشد ،کانگریس لیڈر محمد عبید اللہ شریف، سابق کارپوریٹر عارف پاشاہ کرناٹک اردو اکادمی کے چیرمین مبین منور شامل رہے۔ امیر شریعت مولانا صغیر احمد خان صاحب کی دعا پر تقریب کا اختتام ہوا۔ اس تقریب میں ٹیپو سلطان کے سینکڑوں پرستاروں نے مجاہد آزادی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ودھان سودھا کے اطراف پولیس اہلکاروں کا سخت پہرہ تھا۔ تقریب میں شرکا کا داخلہ بھی آسان نہیں تھا۔
ہم رام مندر کے خلاف نہیں: اس تقریب کے اختتام پر رام مندر کی تعمیر سے متعلق میڈیا کے سوال پر جواب دیتے ہوئے ضمیر احمد خان نے کہاکہ ہم رام مندر کی تعمیر کے خلاف نہیں۔ تاہم مندر کے ساتھ بابری مسجد بھی تعمیر ہونی چاہئے کیونکہ مسجد کو شہید کرکے اس ملک کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔