ہم جنس پرستی کو غیر قانونی بتانے والی آئی پی سی : دفعہ 377 کی موزونیت پر آج فیصلہ دے سکتی ہے سپریم کورٹ
نئی دہلی5ستمبر(ایس او نیوز؍ایجنسی) ہم جنس پرستی کو غیر قانونی بتانے والی آئی پی سی کی دفعہ 377 کی موزونیت پر سپریم کورٹ کل فیصلہ دے سکتی ہے۔ پانچ ججوں کا آئینی بنچ طے کرے گا کہ موافقت سے دو بالغوں کے ذریعے بنائے گئے جنسی تعلقات جرم کے دائرے میں آئیں گے یا نہیں۔ آئینی بنچ میں چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس روہنٹن نریمن، جسٹس کھانولکر، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا شامل ہیں۔ابتدا میں آئینی بنچ نے کہا تھا کہ وہ تحقیقات کرے گا کہ کیا زندگی کے بنیادی حق میں ’جنسی آزادی کا حق‘ شامل ہے، خاص طور پر 9۔جج کے بنچ کے فیصلے کے بعد کہ پرائیویسی کا حق ایک بنیادی حق ہے۔ اس سے پہلے 17 جولائی کو چیف جسٹس دیپک مشراکی صدارت والے پانچ رکنی آئینی بنچ نے دفعہ 377 کی قانونی حیثیت کو چیلنج والی درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے یہ صاف کیا تھا کہ اس قانون کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جائے گا۔ کورٹ نے کہا تھا کہ یہ دو ہم جنس پرست بالغوں کی جانب سے رضامندی سے بنائے گئے جنسی تعلق تک محدود رہے گا۔ بنچ نے کہا کہ اگر دفعہ ۔377 کو مکمل طور منسوخ کر دیا جائے گا تو اشتعال و بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ہم صرف دو ہم جنس پرست بالغوں کی جانب سے رضامندی سے بنائے گئے جنسی تعلق پر غور کر رہے ہیں۔ یہاں رضامندی ہی اہم نکتہ ہے۔بنچ نے کہا تھا کہ آپ بغیر دوسرے کی رضامندی سے رجحان کو نہیں تھوپ سکتے۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی بھی قانون بنیادی حقوق کو پامال کرتا ہے تو ہم قانون پر نظر ثانی یا منسوخ کرنے کے لئے اکثریت والی حکومت کے فیصلے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ بنچ نے کہا کہ بنیادی حقوق کا مکمل مقصد ہے کہ یہ عدالت کو منسوخ کرنے کا حق دیتا ہے۔ ہم اکثریت والی حکومت کی طرف سے قانون کو منسوخ کرنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ اگر قانون غیر آئینی ہے تو اس قانون کو منسوخ کرنا عدالت کا فرض ہے۔واضح ہو کہ بنچ نے یہ تبصرہ اس وقت کیا ہے جب چرچ کی ایک اسوسی ایشن کی جانب سے پیش وکیل شیام جارج نے کہا کہ یہ عدالت کا کام نہیں ہے بلکہ قانون بنانا یا ترمیم کرنا مقننہ کا کام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر فطری جنسی تعلق فطرت کے خلاف ہے اور تادیبی کارروائی میں رضامندی کی بات نہیں ہے۔