بنگلورو20؍فروری(ایس او نیوز) بروہت بنگلورو مہا نگرا پالیکے (بی بی ایم پی) نے اگر چہ کہ حسب توقع دس ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کا بجٹ پیش کیا ہے جس میں ماہرین کے مطابق لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر ہر ایک طبقہ کو خوش کرنے کی بھی کوشش کی ہے مگر اسی کے ساتھ ماہرین شہریات کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بجٹ کا نفاذ اتنا آسان نہیں ہے اس لئے کہ بجٹ میں وارڈ کمیٹیوں کے اراکین کا کوئی خاص حصہ نہیں رہا ہے جو کہ زمینی سطح سے جڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے زیادہ موثر انداز میں منصوبہ کے نفاذ میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جمہوری طریقہ کار پر منتخب وارڈ کمیٹیوں کے ذریعہ ہر ایک حلقہ میں بنیادی ضروریات کی تکمیل اور ترقیاتی کاموں جیسے کچرے کی نکاسی وغیرہ کے سلسلہ میں گہری نگرانی اور سرگرمی، ان حلقوں کے مسائل کے حل میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔لیکن پچھلے دو دہوں سے منتخب نمائندے اس کارروائی میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کرتے رہے ہیں۔مؤثر، شفاف اور مسؤلیت کے حامل شہری انتظامیہ کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود منتخب نمائندے ہوتے ہیں جومسلسل اور قصداً اس بات کی جستجو کرتے رہتے ہیں کہ وارڈ کمیٹیوں کے مؤثر کارکردگی پر قدغن لگایا جائے۔مقصد بالکل واضح ہے ’’جو لوگ بر سر اقتدار ہیں وہ اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ ایک فعال اور ہوشیار عوامی نظام ان منتخب نمائندوں کے گہرائی کے ساتھ جڑ پکڑے ہوئے ذاتی مفادات کے سلسلہ میں منفی طور پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔اور یہ بات شہر میں کچرے کی نکاسی کے معاملہ میں بالکل واضح ہے جو کہ کارپوریٹروں ، ٹھیکہ داروں اور افسر شاہی نظام کے درمیان ٹکراؤ کے نتیجہ میں بری طرح سے متاثر ہو کر رہ گیا ہے‘‘۔موثر اور فعال وارڈ کمیٹیوں کی تشکیل اور اقدار کی حامل سیاسی قیادت اچانک اور جلد بازی میں تیار نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کو ایک منظم انداز میں زمینی سطح سے کام کرتے ہوئے پروان چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک ماہر شہریات اور شہری رضاکاروشواناتھن نے ان بنیادی اہمیت کے حامل سوالات اور ان کے حل کی ایک فہرست پیش کی ہے جو درج ذیل ہے:وارڈ کمیٹیوں کا کام اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟یہ کمیٹیاں کارپوریٹروں کے ساتھ کیسے تعامل کریں گی تاکہ اس کے نتیجہ میں مضبوط اعتمادکی کڑی پیدا ہو سکے اور محلوں میں عوام اور ان کے نمائندوں کی طرف سے کمیٹیوں کے ذریعہ علاقہ کی ترقی کے کاموں میں شرکت ہو سکے؟زمینی سطح پر علاقہ کے ترقیاتی کاموں کو مزید مفلوج ہونے سے روکنے کے سلسلہ میں یہ وارڈ کمیٹیاں کیا کچھ کر سکتی ہیں؟اس کے علاوہ وارڈ کمیٹیوں میں عوام کی منفی شرکت کے بجائے مثبت شرکت کو فروغ دینے کے سلسلہ میں وارڈ کمیٹیوں کے طریقہ کار کے تعلق سے بھی سوالات ہیں، نامزدگی کے مقابلہ میں انتخاب کے طریقہ کار کے فوائد و نقصانات کے تعلق سے بھی غور کرنے اور ان کے حل کی ضرورت ہے تاکہ اس کام میں جمہوری طریقہ کار کو واضح کیا جا سکے۔سابقہ کمیٹیوں کی کمزوریاں واضح طور پر ظاہر کی گئی ہیں، ان کمیٹیوں کی طرف سے پیش کی جانے والی سفارشات کو ویٹو کرنے کا اختیار کارپوریٹروں کو اب بھی حاصل ہے۔وارڈ کی سطح پر صوابدیدی مالیاتی امداد کے استعمال کے سلسلہ میں بھی کارپوریٹروں ہی کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے، فکرمندی کی بات یہ ہے کہ وارڈ کمیٹیوں سے متعلق ضابطوں میں ترمیم کی اب بھی کوئی کوشش یا گنجائش نظر نہیں آرہی ہے۔اس سب کے باوجود ابھی پوری طرح سے امیدیں ختم نہیں ہو گئی ہیں۔شہر کے اکثر علاقوں میں مکینوں کی فلاحی انجمنوں کے مذاکرات میں اب وارڈ کمیٹیاں، ان کا کردار اور ذمہ داریاں بھی شامل ہو چکے ہیں، اس نظام کے ساتھ جڑنے کے معاملہ میں بھی اب عوام میں بڑی دلچسپی نظر آرہی ہے۔ پچھلے تین مہینوں سے جن وارڈوں میں کمیٹی کے اجلاس منعقد ہو تے رہے ہیں وہاں عوام کی شرکت کے سلسلہ میں بھی کافی دلچسپی دیکھی جا رہی ہے۔عمومی سہارا اور صلاحیتوں کی ترقی کے ساتھ وارڈ کمیٹیوں کی موثر کارکردگی کے ذریعہ وارڈ کمیٹیوں کو موثر انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر ایسا ہو جائے تو ہی بنگلور کچرے سے پاک و صاف اور کارگر عوامی تعلیمی اداروں، عوامی صحت مراکز ،محفوظ راستوں اور راہداریوں کے خواب دیکھ سکتا ہے!