کانگریس کے دروازے پر بھی ’’می ٹو‘‘کی دستک خاتون صحافی نے یوپی اے کے وزیر پر لگایا جنسی استحصال کا الزام
نئی دہلی17اکتوبر(ایس او نیوز؍ایجنسیز) گذشتہ چند دنوں سے جاری ’’می ٹو‘‘ مہم کے تحت بی جے پی کے وزیر کی کھنچائی کرکے کانگریس خوش ہوہی رہی تھی کہ اچانک اس مہم نے کانگریس پارٹی دروازے پر بھی دستک دے دی۔ پارٹی نے منگل کو ہی این ایس یوآئی کے قومی صدر کو برخاست ہی کیا تھاکہ ایک اور سینئر کانگریسی لیڈر پر جنسی استحصال کا الزام سامنے آیا ہے جس سے سیاست میں مزید ہلچل مچ گئی ہے ۔ ایک خاتون صحافی نے یوپی اے سرکار میں وزیر رہے کانگریس لیڈر کے خلاف جنسی استحصال کا الزام لگاتے ہوئے اپنی پوری ایک بیتی سنائی ہے۔ سونل کیلانگ ناک کی خاتون کی صحافی نے یوپی اے I کی سرکار کے دوران وزیر رہے اس لیڈر کا نام لئے بغیر بتایا کہ جب انگریزی اخباردی ایشین ایج ہند ہونے کے بعد 2006 میں دہلی آئی ،جہاں انہیں ایک مرکزی وزیر کو کور کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انہوں نے ’’ڈیلی او‘‘ کو لکھے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ مرکزی وزیر نازیبا طریقے سے استقبال کرتے تھے ۔گجرات سے آنے والی کیلانگ بتاتی ہیں کہ وزیر نہ صرف یہ کہ چومنے کی کوشش کرتے بلکہ وہ حد سے آگے بڑھ کر گلے لگانے کی کوشش کرتے ۔ 2014 میں جب قانون صحافی ان کے ساتھ سرکاری بنگلے پر گئیں اوران سے بات کرہی رہی تھیں کہ انہوں نے دست درازی کی کوشش کرتے ۔ صحافی کے منع کرنے پر بھی وہ باز نہیں آتا بلکہ وہ یہ پوچھتا کہ ’’میں ایسا کیوں نہ کروں‘‘.
اکبر کے خلاف 16ویں خاتون صحافی میدان میں :می ٹومہم کے تحت جنسی استحصال کے الزامات میں گھرے مرکزی وزیر برائے خارجہ امورایم جے اکبرکی مشکلوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اکبرپرایک اورخاتون صحافی نے سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ خاتون صحافی کا الزام ہے کہ ایم جے اکبرنے انہیں ہوٹل میں بلاکرزبردستی بوسہ لینے کی کوشش کی تھی۔واضح رہے کہ مرکزی وزیر پراب تک کل16خاتون صحافی جنسی استحصال کے الزامات عائد کرچکی ہیں۔ حالانکہ اکبرنے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اورایک خاتون پرہتک عزت کا مقدمہ بھی دائرکردیا ہے۔اب ایک دیگرخاتون صحافی نے انگریزی ویب سائٹ ’’اسکرال‘‘پرایک تحریرکے ذریعہ اپنا تلخ تجربہ شیئرکیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مشہورانگریزی اخبار’’ڈکن کرانیکل‘‘ میں ایم جے اکبرکے ساتھ کام بھی کرچکی ہیں۔ ایک کھلے خط میں خاتون صحافی نے تین الگ الگ واقعات کا ذکرکیا، جب اکبرنے ان کا استحصال کیا۔ خاتون صحافی نے بتایا کہ1992 میں’’ٹیلی گراف‘‘میں ٹریننگ حاصل کررہی تھیں۔ تب کبھی کبھی اکبرکولکتہ آتے تھے۔خاتون صحافی نے آگے لکھااس وقت مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا تم ایم جے اکبر سے ملنا چاہو گی۔ کون نہیں ملنا چاہے گا؟ میں تیارہوگئی۔ اپنے سینئر کے ساتھ میں بھی گئی اوروہ شام بہت اچھی تھی۔ میرے گھرکا فون نمبرایم جے اکبرکومل گیا۔ انہوں نے مجھے کام کے بہانے ہوٹل بلایا۔ کئی بارسوچنے کے بعد میں جانے کے لئے تیارہوگئی۔ میں نے گھنٹی بجائی اوردروازہ کھلا۔ میں نے عجیب حالت میں اکبر کو دیکھا۔ میں حیران دروازے پرکھڑی تھی۔کیا 22سال کی کسی لڑکی کا استقبال کرنے کا یہ اخلاقی طریقہ تھا۔وہ آگے لکھتی ہیں،بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔1993 میں میں نے بطورسینئرسب ایڈیٹرحیدرآباد میں’’ڈکن کرانیکل‘‘ جوائن کیا۔ ایم جے اکبرمیرے ایڈیٹران چیف تھے۔ اکبرکبھی کبھی وہاں آتے تھے۔ ایک بارجب وہ حیدرآباد آئے، تو مجھے پیج ڈسکشن کے لئے ہوٹل بلایا۔ مجھے کچھ صفحہ مکمل کرنے تھے۔لہٰذا ہوٹل پہنچنے میں مجھے تاخیرہوگئی۔خاتون صحافی نے آگے لکھا ’’جب میں ہوٹل کے کمرے میں پہنچی، تو انہوں نے مجھے غلط طریقے سے چھوا اوربوسہ لینے لگے۔ ان کی چائے کی مہک اورسخت مونچھ آج بھی میری یادوں کو کھرجتی ہیں۔ میں اٹھی اورتب تک دوڑتی رہی جب تک سڑک پرنہیں پہنچ گئی۔ میں نے دوڑ کرآٹورکشا لیا۔ آٹورکشا میں بیٹھنے کے بعد میں رونے لگی‘‘۔انہوں نے آگے لکھا ’’اس کے بعد میں انہیں نظراندازکرنے لگی۔ اگلے دن میں دفترپہنچی۔ میں نے نظربچاکرپیج مکمل کیا۔ اکبرکی ٹیم میں ہمیشہ اسٹاف کی کمی رہتی تھی۔ اخبارکا کام پورا کرنے کے لئے کئی بار ویک آف (ہفتہ واری چھٹی) کی قربانی بھی دینی پڑتی تھی۔ ہمارے تمام اسٹاف کے لئے یہ عام تھا، کیونکہ ہمیں اپنے کام سے پیارتھا۔ میں ایک کونے میں اپنا کام کررہی تھی۔ دوسرے دن انہوں نے اسٹاف سے کہلواکرمجھے کانفرنس روم میں بلایا اور وہاں بھی قابل اعتراض طریقے سے پیش آئے۔