ریاستی اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات کا قوی امکان؛ سدرامیا دسمبر تک ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے خواہاں
بنگلورو۔18؍اپریل(ایس او نیوز) ریاست کے سیاسی حلقوں میں گنڈل پیٹ اور ننجنگڈھ حلقوں کے ضمنی انتخابات میں کانگریس کی جیت کے بعد یہ قیاس آرائیاں شدت اختیار کرگئی ہیں کہ ان دونوں حلقوں میں کامیابی کے اثر کو ریاست بھر میں عام کرنے اور مخالف اقتدار لہر کوپنپنے کا موقع نہ دینے کے مقصد سے وزیراعلیٰ سدرامیا ریاستی اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات کروانے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔
ریاست کے بعض سینئر قائدین نے نام نہ بتانے کی شرط پر اعتراف کیا ہے کہ وزیراعلیٰ سدرامیا ضمنی انتخابات میں کامیابی کے فوراً بعد ہی ریاستی اسمبلی کیلئے وسط مدتی انتخابات کروانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔حالانکہ ریاستی بی جے پی کو یہ توقع تھی کہ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے ذریعہ وہ اگلے انتخابات میں ریاست کے اقتدار پر قابض ہونے کیلئے تیاری کرلے گی، لیکن ریاستی بی جے پی صدر یڈیورپا کے لنگایت طبقے کی اکثریت پر مشتمل ننجنگڈھ اور گنڈل پیٹ اسمبلی حلقوں میں بی جے پی کی رسوا کن شکست نے اس کے حوصلوں کو کمزور کردیا ہے۔
دوسری طرف وزیراعلیٰ سدرامیا کا یہ منصوبہ ہے کہ انتخابات کی حکمت عملی تیار کرنے کیلئے وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے قومی صدر امیت شا کو ذرا بھی موقع مل نہ پائے ، اسی لئے انتخابات قبل از وقت کروادئے جائیں ۔ننجنگڈھ اور گنڈل پیٹ میں عوام نے جس جوش وخروش کے ساتھ کانگریس کا ساتھ دیا ہے وزیراعلیٰ سدرامیا اس جوش وخروش کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں، حالانکہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات غالباً آئندہ مارچ یا اپریل میں ہوں گے تواسمبلی کی موجودہ میعاد مکمل ہوگی، لیکن کہا جارہا ہے کہ سدرامیا ستمبر یا اکتوبر میں ہی انتخابات کروانے کی تیاریوں میں لگ چکے ہیں۔ یا پھر کم از کم دسمبر یا جنوری 2018تک وہ انتخابات کرواسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے 2004میں اس وقت کے وزیراعلیٰ ایس ایم کرشنا نے وقت مقررہ سے چھ ماہ قبل اسمبلی انتخابا ت کروائے تھے۔ اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کو اپریل کے دوران کروایا گیاتھا۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گجرات اسمبلی کے انتخابات دسمبر میں ہونے والے ہیں اس وقت وزیراعظم مودی اور امیت شا کی مکمل توجہ اپنی ریاست گجرات پر مرکوز ہوگی، اسی لئے کانگریس دسمبر میں اسمبلی انتخابات کرواکر اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھاناچاہتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت نے اگر اپنی میعاد مکمل کرلی اور بی جے پی کی مودی ، شا جوڑی اگر کرناٹک کی طرف مکمل طور پر متوجہ رہی تو یہ دونوں ریاست میں حکمران مخالف لہر پیدا کرسکتے ہیں اور کانگریس کو اس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، اسی لئے یہ تیاری کی جارہی ہے کہ کسی طرح گجرات اسمبلی انتخابات کے ساتھ کرناٹک کے انتخابات بھی ہوجائیں۔